پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ چھ مبینہ افغان جاسوسوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
تاہم نا تو اُنھوں نے یہ بتایا کہ ان مبینہ افراد کو کب اور کہاں سے حراست میں لیا گیا۔
جمعرات کو کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران انھوں نے دعویٰ کیا کہ یہ افراد صوبے میں تخریبی کارروائیوں بشمول ہدف بنا کر قتل کرنے کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔
فرنٹیئرکور کے عہدیداروں کے ہمراہ کی جانے والی پریس کانفرنس میں گرفتار کیے گئے مبینہ افغان جاسوسوں کی وڈیو بھی دکھائی گئی جس میں وہ بلوچستان میں اپنی سرگرمیوں کا اعتراف کر رہے ہیں۔
سرفراز بگٹی نے افغان انٹیلی جنس ایجنسی کے دو اعلیٰ عہدیداروں پر الزام عائد کیا کہ وہ گرفتار کیے گئے ان چھ افراد کے ذریعے بلوچستان میں مختلف تخریبی سرگرمیاں سرانجام دیتے رہے جس میں ان کے بقول ان مبینہ جاسوسوں کو مالی وسائل کے علاوہ سازو سامان بھی فراہم کیا جاتا رہا۔
صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ پاکستان، افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات چاہتا ہے لیکن ان کے بقول اگر افغان انٹیلی جنس ادارہ "ایسی سرگرمیاں" جاری رکھتا ہے تو پھر ایسا کرنا بہت مشکل ہوگا۔
افغانستان کی طرف سے تاحال اس پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا، افغانستان ماضی میں ایسے الزامات کی نفی کرتا رہا ہے۔
افغانستان کی طرف سے بھی اپنے ہاں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں میں پاکستان خصوصاً فوج کی انٹیلی جنس ایجنسی "آئی ایس آئی" کے ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں، جنہیں مسترد کرتے ہوئے اسلام آباد کا اصرار رہا ہے کہ وہ مستحکم اور پرامن افغانستان کا خواہاں ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں حالیہ مہینوں میں ایک بار پھر ایسے ہی الزامات کے تبادلے کی وجہ سے کشیدگی دیکھنے میں آئی ہے۔
پاکستانی عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ اس کے ہاں مقیم غیر اندارج شدہ افغان پناہ گزین مختلف شرپسندانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور اسی تناظر میں افغان باشندوں کی ملک میں نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔
بلوچستان کے صوبائی وزیر داخلہ سرفرار بگٹی کا بھی کہنا تھا کہ پاکستان نے لاکھوں افغان شہریوں کی دہائیوں تک میزبانی کی ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ "وہ (افغان مہاجرین) اپنے وطن واپس جائیں۔"