رسائی کے لنکس

'پاکستان نے افغانستان میں کبھی طاقت کے استعمال کی حمایت کی اور نہ ہی کوئی پسندیدہ فریق ہے'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ کابل کے بعض حلقوں کی طرف سے اسلام آباد کے خلاف آنے والے منفی بیانات کے باوجود پاکستان افغانستان میں قیامِ امن کی کوشش جاری رکھے گا۔

وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے یہ بات پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے عراق کے وزیرِ خارجہ فواد حسین کے ہمراہ بدھ کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہی۔

شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں نہ تو کبھی طاقت کے استعمال کی حمایت کی ہے اور نہ ہی پاکستان کا کوئی پسندیدہ فریق ہے۔

حال ہی میں افغانستان کے بعض رہنماؤں اور سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی پوسٹس میں افغانستان کی موجودہ صورتِ حال کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیتے ہوئے اسلام آباد پر طالبان کی حمایت کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان ہمیشہ افغانستان میں قیامِ امن کی تمام کوششوں میں شامل رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود سوشل میڈیا پر پاکستان مخالف ٹرینڈ کی مہم چلائی جا رہی ہے جو رضاکارانہ نہیں ہے بلکہ یہ "بوٹ کنٹرول ٹرینڈ" ہے۔

ان کے بقول یہ افغانستان کو در پیش اندرونی چیلنجوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کے باوجود پاکستان کوئی معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کرے گا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ افغانستان کا امن پاکستان کے مفاد میں ہے۔ پاکستان افغانستان کے امن و استحکام کے لیے جو کچھ کر سکتا ہے وہ کر رہا ہے۔

پاکستان کے وزیر خارجہ کے بیان پر افغان حکومت کی جانب سے تاحال کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔

شاہ محمود قریشی نے یہ بات ایک ایسے وقت کہی ہے جب افغانستان میں قیامِ امن کی کوشش کے سلسلے میں ٹرائیکا کا اجلاس منگل کو قطر کے دارالحکومت میں جاری ہے جس میں امریکہ، چین اور روس کے علاوہ پاکستان بھی شرکت کر رہا ہے۔

یہ اجلاس ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب افغانستان میں متعدد صوبائی دارالحکومت کا کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے عسکری کارروائیاں جاری ہیں۔

افغانستان: شہری ہلاکتوں کے باعث انسانی المیے کے خدشات
please wait

No media source currently available

0:00 0:07:22 0:00

ماہرین کے مطابق دوحہ میں ہونے والے ٹرائیکا اجلاس کے شریک ممالک کی کوشش ہے کہ اٖفغانستان میں تشدد میں کمی ہو اور طالبان کو طاقت کے زور پر افغانستان کا کنٹرول حاصل کرنے سے روکا جائے۔

موجودہ صورتِ حال سے عام لوگ تشویش کا شکار

افغانستان میں سیکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان جاری لڑائی پر عام افراد کو شدید تشویش ہے اور وہ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورتِ حال کا شکار ہیں۔

افغان تجزیہ کار نصرت اللہ حق پال نے کابل سے وائس آف امریکہ سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں عام افراد ملک کی دن بدن بگڑتی ہوئی سیکیورٹی صورتِ حال سے سخت پریشان ہیں اور وہ اپنے مستقبل سے متعلق غیر یقینی کیفیت کا شکار ہیں۔

نصرت اللہ حق پال کا کہنا ہے کہ افغانستان میں تشدد روکنے، افغان حکومت اور طالبان کو مذکرات پر لانے کے لیے تمام اہم ممالک کو مل کر کوششیں کرنا ہوں گی۔

دوحہ میں جاری اجلاس کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں اس اجلاس سے کوئی خاص توقع نہیں ہے کہ یہ افغانستان میں جاری لڑائی کو روکنے میں کامیاب ہو سکے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں ہونے والے ایسی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں۔

لیکن نصرت اللہ حق پال نے یہ بھی کہا کہ اگر افغانستان میں جاری لڑائی کو نہ روکا گیا تو اس کی وجہ سے خطے کا امن و استحکام بھی متاثر ہو سکتا ہے۔

دوسری جانب انہوں نے کہا کہ افغانستان سے امریکہ کی فوج کے انخلا کے بعد صورتِ حال مزید خراب ہو سکتی ہے۔

امریکہ اور نیٹو کے مطابق افغانستان سے افواج کے انخلا کا عمل رواں ماہ کے آخر میں مکمل ہو جائے گا۔

امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے ایک بیان میں انخلا کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان سے امریکہ کی افواج کے انخلا کا فیصلہ 'درست اور قومی مفاد میں ہے۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG