رسائی کے لنکس

'امریکہ سمجھتا ہے پاکستان کا طالبان پر اثر و رسوخ ہے لیکن حقیقت ایسی نہیں'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ پاکستان اب بھی افغان طالبان پر مؤثر اثر و رسوخ رکھتا ہے اور امریکہ کو امید ہے کہ اسلام آباد، طالبان کو جنگ بندی اور مذاکرات پر قائل کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا تاکہ جنگجو طاقت کے ذریعے اقتدار پر قابض نہ ہو سکیں۔

اینٹنی بلنکن نے اپنے دو روزہ دورۂ بھارت کے موقع پر جمعرات کو مقامی نشریاتی ادارے 'ٹائمز آف انڈیا' کو انٹرویو دیا۔ جس کے دوران انہوں نے افغانستان سمیت خطے کے کئی اہم امور پر بات کی۔

امریکی وزیرِ خارجہ کا پاکستان سے متعلق یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف اور انٹر سروسز انٹیلی جنس ( آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل لفٹیننٹ جنرل فیض حمید امریکہ کے دورے پر ہیں۔

سینئر تجزیہ کار اور صحافی نجم سیٹھی کہتے ہیں افغانستان میں امریکہ اور پاکستان کے مفادات مشترک ہیں لیکن بعض معاملات میں ان مفادات کی نوعیت دوسری ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے نجم سیٹھی نے کہا کہ امریکہ کی خواہش تھی کہ اشرف غنی کی حکومت برقرار رہے اور اسے مضبوط کیا جائے جب کہ طالبان سے متعلق واشنگٹن کی کوشش تھی کہ انہیں اقتدار سے دور رکھا جائے۔

ان کے بقول اب زمینی حقائق تبدیل ہو چکے ہیں۔ پاکستان کی یہ کوشش ہے کہ کوئی ایک فریق بھی افغانستان میں مکمل پاور میں نہ ہو کیوں کہ تاریخی اعتبار سے افغانستان کو کوئی ایک جماعت مکمل طور پر کنٹرول نہیں کر سکتی۔

نجم سیٹھی نے مزید بتایا کہ اگر افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہوتا ہے تو اس کے پاکستان پر براہِ راست اثرات پڑنے کا خدشہ ہے۔ ان کے مطابق امریکہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کا طالبان پر ہر قسم کا اثر و رسوخ ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔

ان کے بقول طالبان موجودہ حالات میں افغانستان میں بہت زیادہ مضبوط ہو چکے ہیں جس کے بعد وہ ایک حد تک تو پاکستان کی بات سن سکتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے مفادات کو بھی دیکھ رہے ہیں۔

نجم سیٹھی نے کہا کہ پاکستان کی کوشش ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے میں مزید پیش رفت ہو اور اس سلسلے میں روس، چین اور ایران بھی طالبان سے بات چیت کریں تاکہ خطے میں آنے والی تبدیلیوں کو نظر انداز نہ کیا جائے۔

'افغانستان کو اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنا ہے'

افغان فورسز اور طالبان کے درمیان افغانستان کے 34 میں سے 28 صوبوں میں شدید لڑائی جاری ہے۔ طالبان دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے آدھے سے زائد ملک کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ تاہم افغان حکومت طالبان کے ان دعوؤں کو مسترد کرتی ہیں۔

لڑائی کے باعث جہاں ایک جانب شہری غیر یقینی صورتِ حال سے پریشان ہیں تو دوسری جانب ہزاروں کی تعداد میں شہری ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔

افغانستان کی کشیدہ صورتِ حال کو مد نظر رکھتے ہوئے ماہرین اگست کے آخر تک امریکی انخلا کو غیر دانش مندانہ فیصلہ قرار دیتے ہیں۔

تاہم امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن کہتے ہیں افغانستان کو اپنے مستقبل کی تشکیل بالاخر خود ہی کرنی ہے جس میں امریکی مدد شامل ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ بیس سال بعد بھی اگر افغانستان میں کوئی اپنے لوگوں کا احترام نہیں کرتا۔ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی پامالی کرتا ہے تو افغانستان عالمی سطح پر ایک بار پھر تنہا رہ جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں 20 سال قیام کے دوران امریکہ نے ایک کھرب ڈالر کے ساتھ ساتھ 4500 فوجی بھی کھوئے ہیں۔

طالبان کی بڑھتی ہوئی حالیہ پیش قدمی کے بعد خواتین اور انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم تنظیموں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔

کیا طالبان کے زیرِ قبضہ علاقوں میں آزادیٴ صحافت خطرے میں ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:07:38 0:00

کابل میں مقیم خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم پلوشہ حسن کا کہنا ہے کہ خواتین کو عالمی سطح پر جو حقوق حاصل ہیں ویسے حقوق اور آزادی افغانستان میں دن بدن سکڑتے جا رہے ہیں۔ حتیٰ کہ افغان خواتین کو زندگی کے بنیادی حقوق کی ضمانت بھی نہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جنگ کے ذریعے کبھی افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ موجودہ حالات میں ملک کی آدھی آبادی بھوک سے نڈھال ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر افغانستان کی صورتِ حال اسی طرح رہی تو سب سے زیادہ بچے اور خواتین متاثر ہوں گی اور ملک ترقی کے لحاظ سے صدیوں پیچھے چلا جائے گا۔

XS
SM
MD
LG