افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے باجوڑ میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے انسداد پولیو ٹیم کی حفاظت پر مامور سکیورٹی اہلکار کو ہلاک کردیا۔
مقامی حکام کے مطابق بدھ کی صبح ڈمہ ڈولہ کے علاقے میں انسداد پولیو ٹیم کے ارکان بچوں کو پولیو ویکسین پلانے میں مصروف تھیں کہ نامعلوم مسلح افراد نے ان پر حملہ کردیا۔
فائرنگ سے ٹیم کی حفاظت پر مامور لیویز کا ایک اہلکار ہلاک ہوگیا جب کہ حملہ آور موقع سے فرار ہوگئے۔
تاحال کسی فرد یا گروہ نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن مشتبہ شدت پسند اس سے قبل بھی قبائلی علاقوں کے علاوہ ملک کے مختلف حصوں میں انسداد پولیو کی ٹیموں پر ہلاکت خیز حملے کرتے رہے ہیں۔
باجوڑ ایجنسی میں محکمہ صحت کے اعلیٰ عہدیدار ڈاکٹر ذاکر خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جس علاقے میں یہ واقعہ پیش آیا وہاں ویکسینیشن کا عمل روک دیا گیا جب کہ ایجنسی کے دیگر علاقوں میں یہ مہم معمول کے مطابق جاری رہی۔
قبائلی علاقے میں انسداد پولیو مہم پیر کو شروع کی گئی تھی۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان تین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں انسانی جسم کو مفلوج کر دینے والی بیماری پولیو کے وائرس پر تاحال پوری طرح سے قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ دوسرے دو ملکوں میں نائیجیریا اور افغانستان شامل ہیں۔
لیکن ان دنوں ملکوں کی نسبت پاکستان میں انسداد پولیو کی کوششوں کو ٹیموں پر ہونے والے حملوں کی وجہ سے شدید نقصان پہنچا ہے جس کی وجہ سے یہاں پولیو سے متاثرہ کیسز کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
رواں سال اب تک رپورٹ ہونے والے پولیو کیسز کی تعداد 138 ہے جن میں ایک سو سے زائد کا تعلق پاکستان کے قبائلی علاقوں سے ہے۔
سال 2012ء کے اواخر سے پاکستان کے مختلف علاقوں میں انسداد پولیو کے رضاکاروں پر جان لیوا حملوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا جس کے بعد ان ٹیموں کے ساتھ سکیورٹی اہلکار بھی تعینات کیے جانے لگے۔ لیکن اس کے باوجود پرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہا اور اب سکیورٹی اہلکاروں پولیو سے بچاؤ کی مہم سے وابستہ 55 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ سلامتی کے خدشات کے باعث بار بار معطل ہونے والی مہم کی وجہ سے پاکستان سے پولیو وائرس کے مکمل خاتمے کا ہدف حاصل کرنا بہت مشکل نظر آتا ہے۔