پاکستان میں رواں برس پولیو سے متاثرہ کیسز کی تعداد 276 تک پہنچ چکی ہے جو کہ ایک تشویشناک صورتحال ہے۔
پولیو وائرس کے پھیلاؤ کی بڑی وجوہات میں جہاں انسداد پولیو کی ٹیموں پر شدت پسندوں کے جان لیوا حملے بتائے جاتے ہیں وہیں اس ویکسین سے متعلق پروپیگنڈے کی وجہ سے اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلوانے سے انکار بھی ہے۔
بعض بنیاد پرست حلقوں کی طرف سے پولیو ویکسین کو افزائش نسل میں رکاوٹ کی مغربی سازش قرار دیا جاتا ہے جو کہ مذہبی علما اور طبی ماہرین کے بقول سراسر غلط ہے۔
اس بارے میں ایک عرصے سے سعودی عرب کے مذہبی علما سمیت پاکستانی عالم دین بھی یہ پیغامات دیتے آئے ہیں کہ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلوانا ہر گز غیر اسلامی نہیں بلکہ یہ بچوں کے صحت مند مستقبل کے لیے بہت ضروری ہیں۔
معروف مذہبی اسکالر مفتی منیب الرحمٰن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا۔
"جو ہماری معلومات ہیں اور جو ہمیں ماہر ڈاکٹروں نے بتایا ہے ان کے بیانات اور ان کی تشریح کی روشنی میں ان (پولیو ویکیسن) میں کوئی نقصان دہ چیز نہیں ہے لہذا بچوں کو یہ پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے چاہیئں۔"
پاکستان میں اب تک رپورٹ ہونے والے پولیو کیسز کی اکثریت کا تعلق شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ اور اس سے ملحقہ قبائلی علاقوں سے ہے۔
دسمبر 2012ء سے ملک کے مختلف حصوں میں انسداد پولیو کی ٹیموں پر جان لیوا حملے ہوتے آ رہے ہیں جس کی وجہ سے یہ مہم بارہا معطل بھی ہو چکی ہے۔
مفتی منیب الرحمٰن کا کہنا تھا کہ پولیو مہم میں شامل افراد پر حملے کسی صورت بھی جائز نہیں ہیں۔
"جو پولیو ورکر کو مارا جاتا ہے یہ ظلم ہے یہ ناجائز ہے، یہ نہیں ہونا چاہیئے اور حکومت کو چاہیئے جہاں اس طرح کی خطرناک صورتحال ہو تو وہاں ورکروں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔"
ان کا کہنا تھا کہ اس مہم سے متعلق پروپیگنڈہ کرنے والوں کے سد باب کے لیے بھی موثر اقدامات کیے جانے چاہیئں۔
قومی ادارہ صحت کے مطابق ملک بھر میں پیر سے پولیو کے خلاف تین روزہ مہم شروع کی جا رہی ہے جس میں تقریباً ساڑھے تین کروڑ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائیں جائیں گے۔