پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک سال قبل پیش آنے والے بدترین فضائی حادثے کی وجوہات سے متعلق حقائق منظر عام پر لانے کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔
نجی فضائی کمپنی ایئر بلیو کی کراچی سے اسلام آباد آنے والی پرواز کو یہ حادثہ سال 28 جولائی کی صبح پیش آیا جب مسافر طیارہ ابر آلود موسم میں دارالحکومت کے اطراف میں مارگلہ کے پہاڑی سلسلے سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا اور اس میں سوار عملے کے چھ اراکین سمیت تمام 152 افراد ہلاک ہو گئے۔
پاکستان میں شہری ہوابازی کی تاریخ کے اس ہلاکت خیز حادثے کی لمحہ با لمحہ سامنے آنے والی تفصیلات اور ماہرین کے تبصرے دن بھر ذرائع ابلاغ میں نمایاں رہے لیکن اس حادثے کو 24 گھنٹے گزرنے کے بعد جب میڈیا پر یہ خبریں نشر ہونا شروع ہوئیں کہ ملک اپنی تاریخ کے بدترین سیلاب کی زد میں آ چکا ہے تو حسب توقع طیارے کے حادثے کی خبر اور اس کی تحقیقات کے مطالبات پر سے توجہ فوراً ہی ہٹ گئی۔
تاہم حادثے کو ایک سال مکمل ہونے پر جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین اور ایئر بلیو کے اعلیٰ عہدے داروں نے اس واقعے کی تحقیقات کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ دہرایا ہے تاکہ ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔
ایئر بیلو کے چیئرمین اور رکن قومی اسمبلی شاہد خاقان عباسی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی تحقیقاتی کمیٹی اپنا کام مکمل کر چکی ہے۔
”تحقیقاتی رپورٹ تقریباً چار مہینے پہلے مکمل ہو گئی تھی لیکن ابھی تک یہ حکومت کے پاس ہے اور جاری نہیں ہوئی۔ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ رپورٹ اگلے چند ہفتوں میں جاری ہو جائے گی اور منظر عام پر بھی لائی جائے گی۔“
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان میں بدقسمتی سے ماضی میں ایسے حادثات کی رپورٹس کو منظر عام پر نہیں لایا گیا، لیکن ایئر بلیو کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ اس واقعے کی رپورٹ کو منظر عام پر لایا جائے۔
ایئر بیلو حادثے میں ہلاک ہونے والی کراچی کی شہری رباب زہرہ کے بھائی مصطفیٰ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”جانے والا تو چلا گیا، اب ہمیں صرف اتنا بتا دیں کہ آخر طیارے کو پیش آنے والے حادثے کی وجہ کیا تھی تاکہ مستقبل میں ایسے کسی واقعے سے بچا جا سکے۔“
وائس آف امریکہ نے فضائی حادثے کی تحقیقات منظر عام پر لانے کے مطالبات کے بارے میں جب وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان سے رابطہ کیا تو اُنھوں نے کہا کہ حکومت کو ایک ابتدائی رپورٹ موصول ہوئی تھی جس میں بعض کمیوں کی نشاندہی کی گئی۔ ”بالآخر یہ فیصلہ ہوا کہ اس (رپورٹ) پر پھر سے مشاورت ہو اور ہماری کوشش ہے کہ جلد از جلد یہ منظر عام پر آئے۔“
پاکستان میں پیش آنے والے اکثر فضائی حادثوں میں جہاز کا بلیک باکس اور دیگر شواہد حکام کے ہاتھ لگنے کے باوجود آج تک ملک کی تاریخ میں پیش آنے والے کسی بھی ایسے واقعے کی تحقیقات منظر عام پر نہیں لائی گئی ہیں اور نا ہی انھیں خفیہ رکھنے کی وجوہات سے عوام کو آگاہ کیا گیا ہے۔
ان واقعات میں اکست 1989ء میں گلگت اور جولائی 2006ء میں ملتان میں قومی ایئر لائن پی آئی اے کے فوکر طیاروں کو پیش آنے والے حادثات کے علاوہ اگست 1988ء میں فوجی صدر جنرل ضیاالحق اور فروری 2003ء میں پاکستانی فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل مصحف علی میر کے طیاروں کے تباہ ہونے کے واقعات قابل ذکر ہیں۔