کوئٹہ —
پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں بدھ کو دو مختلف بم دھماکوں میں فوج کے دو اہلکاروں سمیت کم ازکم آٹھ افراد ہلاک اور 12 زخمی ہوگئے۔
حکام نے بتایا کہ چمن میں پاک افغان سرحد پر ہونے والے ایک بم دھماکے میں کم ازکم پانچ افراد ہلاک اور ایف سی کے چھ اہلکاروں سمیت 11 زخمی ہوئے۔
دھماکا سرحد پار افغانستان کی حدود میں ہوا لیکن یہ پاکستانی علاقے میں بھی جانی و مالی نقصان کا باعث بنا۔ باب دوستی نامی اس گزرگاہ پر سرحد کے آر پار جانے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہوتی ہے۔
اس واقعے سے چند گھنٹے قبل بلوچستان کے زلزلہ زدہ علاقے آواران میں سڑک میں نصب بم پھٹنے سے فوج کے دو اہلکار ہلاک اور ایک شدید زخمی ہوگیا۔
فوجی حکام نے بتایا کہ مشکے کے علاقے میں فوجی جوان زلزلہ متاثرین میں امدادی سامان تقسیم کرنے جا رہے تھے کہ جھلواری کے قریب نامعلوم شدت پسندوں نے انھیں سڑک میں نصب دیسی ساختہ بم سے نشانہ بنایا۔
گزشتہ ہفتے بلوچستان میں 7.7 شدت کے زلزلے سے چھ اضلاع متاثر ہوئے جن میں آواران شدید تباہی کا شکار ہوا۔ زلزلے سے لگ بھگ چار سو افراد ہلاک اور آٹھ سو سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
متاثرہ علاقوں میں فوج اور فرنٹیئر کور کے اہلکاروں کے علاوہ وفاقی اور صوبائی ادارے بھی امداد اور بحالی کے کاموں میں مصروف ہیں۔
بدھ کو ہونے والے دھماکے سے قبل بھی امدادی سرگرمیوں کے دوران سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر حملے ہوتے رہے لیکن یہ پہلا واقعہ ہے جس میں کوئی جانی نقصان ہوا۔
حکومت نے ان علاقوں میں سرگرم کالعدم تنظیموں سے کہا ہے کہ وہ امدادی کاموں میں خلل نہ ڈالیں تاکہ لوگوں تک بروقت امداد پہنچا کر ان کی بحالی کو ممکن بنایا جا سکے۔
حکام نے شدت پسندوں کے حملوں کے پیش نظر متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان کی نقل و حمل کی حکمت عملی کو تبدیل کیا ہے اور اب ان علاقوں میں اثرورسوخ رکھنے والی مذہبی جماعتوں کی مدد سے متاثرین کو خوراک اور دیگر اشیاء پہنچانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
مقامی انتظامیہ کے مطابق اس مقصد کے لیے جمیعت علما الاسلام (ف) کے ضلع قلات، خضدار اور سوراب کے منتخب نمائندوں اور اس جماعت کے زیر انتظام چلنے والے مدارس کے نیٹ ورک کو استعمال کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں سینیٹر مولانا غفور حیدری اور مولانا قمرالدین امدادی سامان لے کر مشکے اور دیگر قریبی دیہاتوں میں پہنچ چکے ہیں۔
حکام نے بتایا کہ چمن میں پاک افغان سرحد پر ہونے والے ایک بم دھماکے میں کم ازکم پانچ افراد ہلاک اور ایف سی کے چھ اہلکاروں سمیت 11 زخمی ہوئے۔
دھماکا سرحد پار افغانستان کی حدود میں ہوا لیکن یہ پاکستانی علاقے میں بھی جانی و مالی نقصان کا باعث بنا۔ باب دوستی نامی اس گزرگاہ پر سرحد کے آر پار جانے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہوتی ہے۔
اس واقعے سے چند گھنٹے قبل بلوچستان کے زلزلہ زدہ علاقے آواران میں سڑک میں نصب بم پھٹنے سے فوج کے دو اہلکار ہلاک اور ایک شدید زخمی ہوگیا۔
فوجی حکام نے بتایا کہ مشکے کے علاقے میں فوجی جوان زلزلہ متاثرین میں امدادی سامان تقسیم کرنے جا رہے تھے کہ جھلواری کے قریب نامعلوم شدت پسندوں نے انھیں سڑک میں نصب دیسی ساختہ بم سے نشانہ بنایا۔
گزشتہ ہفتے بلوچستان میں 7.7 شدت کے زلزلے سے چھ اضلاع متاثر ہوئے جن میں آواران شدید تباہی کا شکار ہوا۔ زلزلے سے لگ بھگ چار سو افراد ہلاک اور آٹھ سو سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
متاثرہ علاقوں میں فوج اور فرنٹیئر کور کے اہلکاروں کے علاوہ وفاقی اور صوبائی ادارے بھی امداد اور بحالی کے کاموں میں مصروف ہیں۔
بدھ کو ہونے والے دھماکے سے قبل بھی امدادی سرگرمیوں کے دوران سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر حملے ہوتے رہے لیکن یہ پہلا واقعہ ہے جس میں کوئی جانی نقصان ہوا۔
حکومت نے ان علاقوں میں سرگرم کالعدم تنظیموں سے کہا ہے کہ وہ امدادی کاموں میں خلل نہ ڈالیں تاکہ لوگوں تک بروقت امداد پہنچا کر ان کی بحالی کو ممکن بنایا جا سکے۔
حکام نے شدت پسندوں کے حملوں کے پیش نظر متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان کی نقل و حمل کی حکمت عملی کو تبدیل کیا ہے اور اب ان علاقوں میں اثرورسوخ رکھنے والی مذہبی جماعتوں کی مدد سے متاثرین کو خوراک اور دیگر اشیاء پہنچانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
مقامی انتظامیہ کے مطابق اس مقصد کے لیے جمیعت علما الاسلام (ف) کے ضلع قلات، خضدار اور سوراب کے منتخب نمائندوں اور اس جماعت کے زیر انتظام چلنے والے مدارس کے نیٹ ورک کو استعمال کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں سینیٹر مولانا غفور حیدری اور مولانا قمرالدین امدادی سامان لے کر مشکے اور دیگر قریبی دیہاتوں میں پہنچ چکے ہیں۔