قطر میں افغانستان کی حکومت، مصالحتی کونسل اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان بات چیت ہورہی ہے جس کا کوئی مخصوص ایجنڈا تو سامنے نہیں آیا لیکن جنگ سے تباہ حال ملک میں فریقین کی اس دو بدو ملاقات کو قیام امن کی کوششوں کے لیے اچھا قدم قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ بات چیت تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے لیے عالمی سطح پر کوشاں ایک بین الاقوامی تنظیم پگواش کی طرف سے منعقدہ کانفرنس کے موقع پر ہو رہی ہے۔
طالبان کا کہنا ہے کہ ان کا آٹھ رکنی وفد اس کانفرنس میں شرکت کر رہا ہے اور اس دوران وہ افغان حکومت کے نمائندوں سے بھی بات چیت کرے گا۔
پاکستان نے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں مصالحتی عمل کے لیے کی جانے والی کوششوں کی مکمل حمایت اور دوحا میں ہونے والی بات چیت کا خیرمقدم کرتا ہے۔
اتوار کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری کا کہنا تھا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ طالبان امن کی راہ اپنائیں۔
طالبان نے افغانستان میں حالیہ ہفتوں کے دوران اپنی پرتشدد کارروائیوں کو تیز کر دیا ہے اور ان کا یہ موقف رہا ہے کہ وہ اس وقت تک مصالحتی عمل میں شریک نہیں ہوں گے جب تک ملک میں ایک بھی بین الاقوامی فوجی موجود ہے۔
گزشتہ سال کے اواخر میں 13 برس کے بعد تمام بین الاقوامی افواج کا افغانستان انخلا ہو چکا ہے اب ایک سکیورٹی معاہدے کے تحت 12000 کے قریب بین الاقوامی فوجی یہاں مقامی فورسز کی تربیت اور انسداد دہشت گردی میں معاونت کے لیے موجود ہیں۔ ان میں اکثریت امریکی فوجیوں کی ہے۔
افغان صدر اشرف غنی طالبان کو ملکی آئین تسلیم کرتے ہوئے سیاسی دھارے میں شریک ہونے کی دعوت بھی دے چکے ہیں۔
ماضی میں افغان حکام پاکستان پر الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ وہ طالبان پر اپنے اثر رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں امن کی کوششوں کو ناکام بنا رہا ہے۔ لیکن پاکستان اس کی ترید کرتے ہوئے کہتا آیا ہے کہ ایک پرامن افغانستان خود اس کے اپنے مفاد میں ہے۔
پگواش کے پاکستان میں معاون اور سینیئر تجزیہ کار طلعت مسعود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں قطر میں ہونے والی بات چیت کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس سے فریقین کو ایک دوسرے کے خیالات جانچنے کا موقع ملے گا۔
"میں یہ سمجھتا ہوں کہ کوئی حرج نہیں ہے کہ بات چیت کا سلسلہ شروع ہو لیکن زیادہ توقع نہیں کرنی چاہیئے۔ یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ اس قسم کی بات چیت سے ایک دوسرے کی سوچ کے بارے میں بھی کچھ حد تک علم ہوتا ہے اس وجہ سے بھی فریقین بات چیت کرتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ یہ چاہیں کہ کوئی معاملہ حل ہو بلکہ وہ یہ چاہتے ہیں کے کچھ معاملات کا پتہ لگے کہ ان کی کیا سوچ ہے کس حد تک وہ ہمیں اپنی پوزیشن میں لچک دکھا سکتے ہیں۔"
سینیئر تجزیہ کار شاہد لطیف کہتے ہیں کہ اگر پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لے آتا ہے اور سے کوئی بامعنی نتیجہ نکلتا ہے تو یہ نہ صرف پاکستان اور افغانستان کے لیے بلکہ خطے کے لیے بھی بہت فائدہ مند ہوگا۔
"ہمارا طالبان پر جو اثرورسوخ ہے انھیں ہمیں مذاکرات کی میز پر لانا چاہیئے جو کہ بہتر مفاد میں ہے۔۔۔ وہ ہمارے حق میں ہے وہ افغانستان کے حق میں ہے اس کی وجہ سے ہمارا نام بڑا بنے گا اور وہ عناصر جو اس خطے کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں ان کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا یہ ہماری کوشش ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ ایسے کسی بھی پرامن مذاکراتی حل میں پاکستان کی کوششیں بارآور ثابت ہونے سے خطے میں اس کی اسٹریٹیجک اہمیت میں بھی اضافہ ہوگا۔