اسلام آباد —
پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کی بلوچستان میں قیام گاہ پر حملے میں ’’اندرونی ہاتھ‘‘ بھی ملوث ہو سکتے ہیں۔
پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ بلوچستان کے سیاحتی علاقے زیارت میں قائداعظم کی قیام گاہ پر تعینات چوکیداروں اور مقامی انتظامیہ نے اس حملے کو روکنے یا حملہ آوروں کو گرفتار کرنے میں بظاہر کوتاہی کا مظاہرہ کیا۔
انھوں نے ایوان کو بتایا کہ ’زیارت ریزیڈنسی‘ پر حملے کی جامع تحقیقات کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسوں کے اہلکاروں پر مشتمل ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنا دی گئی ہے۔
چوہدری نثار نے بتایا کہ مقامی انتظامیہ کی طرف سے حملے کے بعد عسکریت پسندوں کو گرفتار کرنے کے لیے خاطر خواہ کوشش نہیں کی گئی۔
’’کہیں ایسا تو نہیں کہ اندرونی ہاتھ اس میں ملوث ہوں؟ یہ بنیادی سوال ہم نے جے آئی ٹی ذمے کر رہے ہیں۔‘‘
وزیر داخلہ کے بقول عسکریت پسند حملے سے قبل اس مقام پر تقریباً دو گھنٹے تک رہے اور مشکوک سرگرمیوں کے باوجود وہاں موجود چوکیداروں کی طرف سے کسی قسم کا ردعمل نہیں دیکھا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ سیکیورٹی گارڈز کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا جا چکا ہے اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی۔
چوہدری نثار نے کوئٹہ میں ہونے والے ایک یونیورسٹی پر خود کش حملے اور اس کے فوراً بعد عسکریت پسندوں کی فائرنگ کے واقعات پر سکیورٹی اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنا کام بہتر انداز میں انجام دینے میں ناکام رہے ہیں۔
’’میرا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کسی شہر میں اس سے زیادہ سکیورٹی کا گھیرا نہیں ہو سکتا۔ جگہ جگہ پولیس اور ایف سی کے ناکے ہیں۔ ہر کونے میں انٹیلی جنس کے اہلکار کھڑے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ کوئٹہ شہر دہشت گردوں کے نشانے پر ہوتا ہے۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ خفیہ اداروں کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق کوئٹہ میں ایک یونیورسٹی کی بس پر خود کش حملہ کرنے والی خاتون تھی اور حملہ آوروں کو اعلٰی سرکاری عہدیداروں کی آمد کی پیشگی اطلاع بھی تھی۔
صوبائی دارالحکومت میں ہونے والے اس خود کش حملے اور فائرنگ کے واقعے میں طالبات، کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر، پولیس اور ایف سی اہلکاروں سیمت 24 افراد ہلاک اور 30 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔
ملک بھر میں شدت پسندی سے متعلق چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ حکومت قیام امن کے لیے ناراض بلوچ قوم پرستوں اور قبائلی علاقوں میں جنگجوؤں سے مذاکرات کو ترجیح دیتی ہے مگر شدت پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے طاقت کا استعمال بھی کیا جائے گا۔
اجلاس کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سابق وفاقی وزیر داخلہ اور قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب خان شیرپاؤ کا کہنا تھا کہ حکومت کو سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔
’’ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ کہ انہوں نے زیارت یا طالبات پر کیوں حملہ کیا؟ کیا محرکات ہیں؟ یہ معاملہ صرف انتظامی اقدامات کرنے سے حل نہیں ہوگا۔ اس میں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو شامل کرنا ہوگا۔‘‘
سابق وزیر خارجہ اور تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کہتے ہیں ’’اگر افغانستان چاہے تو ہمیں ان کی مدد کرنی چاہیے۔ ہمیں ایک اچھے ہمسائے کی طرح ان کے معاملات میں مداخلت کیے بغیر اُن کی معاونت کرنی چاہیے کیونکہ اگر وہاں بدامنی ہوتی ہے تو اس کا براہ راست اثر خیبر پختونخواہ، بلوچستان اور قبائلی علاقوں پر پڑتا ہے۔‘‘
میاں نواز شریف کی نو منتحب حکومت میں شامل عہدیدار کہہ چکے ہیں کہ ملک میں شدت پسندی کے خاتمے اور قیام امن کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے ایک حکمت عملی ترتیب دی جائے گی تاہم قانون سازوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بارے میں جلد سے جلد لائحہ عمل تیار کرکے اس پر موثر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہی حکومت کی کامیابی ہوگی۔
پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ بلوچستان کے سیاحتی علاقے زیارت میں قائداعظم کی قیام گاہ پر تعینات چوکیداروں اور مقامی انتظامیہ نے اس حملے کو روکنے یا حملہ آوروں کو گرفتار کرنے میں بظاہر کوتاہی کا مظاہرہ کیا۔
انھوں نے ایوان کو بتایا کہ ’زیارت ریزیڈنسی‘ پر حملے کی جامع تحقیقات کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسوں کے اہلکاروں پر مشتمل ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنا دی گئی ہے۔
چوہدری نثار نے بتایا کہ مقامی انتظامیہ کی طرف سے حملے کے بعد عسکریت پسندوں کو گرفتار کرنے کے لیے خاطر خواہ کوشش نہیں کی گئی۔
’’کہیں ایسا تو نہیں کہ اندرونی ہاتھ اس میں ملوث ہوں؟ یہ بنیادی سوال ہم نے جے آئی ٹی ذمے کر رہے ہیں۔‘‘
وزیر داخلہ کے بقول عسکریت پسند حملے سے قبل اس مقام پر تقریباً دو گھنٹے تک رہے اور مشکوک سرگرمیوں کے باوجود وہاں موجود چوکیداروں کی طرف سے کسی قسم کا ردعمل نہیں دیکھا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ سیکیورٹی گارڈز کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا جا چکا ہے اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی۔
چوہدری نثار نے کوئٹہ میں ہونے والے ایک یونیورسٹی پر خود کش حملے اور اس کے فوراً بعد عسکریت پسندوں کی فائرنگ کے واقعات پر سکیورٹی اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنا کام بہتر انداز میں انجام دینے میں ناکام رہے ہیں۔
’’میرا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کسی شہر میں اس سے زیادہ سکیورٹی کا گھیرا نہیں ہو سکتا۔ جگہ جگہ پولیس اور ایف سی کے ناکے ہیں۔ ہر کونے میں انٹیلی جنس کے اہلکار کھڑے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ کوئٹہ شہر دہشت گردوں کے نشانے پر ہوتا ہے۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ خفیہ اداروں کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق کوئٹہ میں ایک یونیورسٹی کی بس پر خود کش حملہ کرنے والی خاتون تھی اور حملہ آوروں کو اعلٰی سرکاری عہدیداروں کی آمد کی پیشگی اطلاع بھی تھی۔
صوبائی دارالحکومت میں ہونے والے اس خود کش حملے اور فائرنگ کے واقعے میں طالبات، کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر، پولیس اور ایف سی اہلکاروں سیمت 24 افراد ہلاک اور 30 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔
ملک بھر میں شدت پسندی سے متعلق چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ حکومت قیام امن کے لیے ناراض بلوچ قوم پرستوں اور قبائلی علاقوں میں جنگجوؤں سے مذاکرات کو ترجیح دیتی ہے مگر شدت پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے طاقت کا استعمال بھی کیا جائے گا۔
اجلاس کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سابق وفاقی وزیر داخلہ اور قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب خان شیرپاؤ کا کہنا تھا کہ حکومت کو سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔
’’ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ کہ انہوں نے زیارت یا طالبات پر کیوں حملہ کیا؟ کیا محرکات ہیں؟ یہ معاملہ صرف انتظامی اقدامات کرنے سے حل نہیں ہوگا۔ اس میں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو شامل کرنا ہوگا۔‘‘
سابق وزیر خارجہ اور تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کہتے ہیں ’’اگر افغانستان چاہے تو ہمیں ان کی مدد کرنی چاہیے۔ ہمیں ایک اچھے ہمسائے کی طرح ان کے معاملات میں مداخلت کیے بغیر اُن کی معاونت کرنی چاہیے کیونکہ اگر وہاں بدامنی ہوتی ہے تو اس کا براہ راست اثر خیبر پختونخواہ، بلوچستان اور قبائلی علاقوں پر پڑتا ہے۔‘‘
میاں نواز شریف کی نو منتحب حکومت میں شامل عہدیدار کہہ چکے ہیں کہ ملک میں شدت پسندی کے خاتمے اور قیام امن کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے ایک حکمت عملی ترتیب دی جائے گی تاہم قانون سازوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بارے میں جلد سے جلد لائحہ عمل تیار کرکے اس پر موثر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہی حکومت کی کامیابی ہوگی۔