اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے جنیوا میں ہونے والے اجلاس کے موقع پر بعض قوم پرست بلوچوں کی جانب سے صوبے میں امن و امان کی خراب صورت حال اور مبینہ طور پر انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف مظاہرے کی اطلاعات ملی ہیں۔
دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط کا کہنا ہے حکومت سوئیٹزرلینڈ میں ہونے والے مظاہروں کی اطلاعات سے آگاہ ہے اور بلوچستان کے مسئلے کے بارے میں منفی تاثر کو زائل کرنے کے لیے سفارتی کوششوں کے ذریعے باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔
عبدالباسط نے جمعہ کو نیوز کانفرنس میں بتایا تھا کہ بیرون ملک پاکستانی سفارت خانے متعلقہ حلقوں سے رابطے میں ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ بلوچستان کی صورت حال کو حقائق کے منافی پیش کرنے والوں کی کوششیں کامیاب نا ہو سکیں۔
اُنھوں نے کہا کہ اسلام آباد میں سوئیٹزرلینڈ کے سفیر کو طلب کر کے ان کے ملک میں بلوچستان کے بارے میں ہونے والی سرگرمیوں پر بھی احتجاج کیا گیا۔
’’ہم نے متعلقہ ممالک کی حکومتوں سے احتجاج کیا ہے اور ان ملکوں کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ ان کی سرزمین پاکستان مخالف سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی‘‘۔
اُدھر بلوچستان کی نیشنل پارٹی کے سینیٹر میر حاصل بزنجو نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ صوبے میں ’’انسانی حقوق کی اگر پامالی ہو گی تو کہیں نا کہیں تو آواز اٹھے گی‘‘۔ اُنھوں نے کہا کہ اگر اندرون ملک معاملات کو ٹھیک رکھا جاتا تو یہ مسائل نا ہوتے۔
میر حاصل بزنجو نے کہا کہ حالات کو درست سمت میں لے جانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت بلوچستان کے لیے کیے جانے والے اعلانات پر عمل درآمد شروع کرے۔ ’’اگر انھیں اعلانات پر عمل درآمد شروع ہو جائے تو شاید چیزیں آگے جا کر بہتر ہو جائیں لیکن ایک بات سمجھنے کی ہے بلوچستان کا مسئلہ دو چار دن میں حل ہونے والا نہیں ہے اس لیے لمبی پلاننگ کی ضرورت ہے‘‘۔
پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرنے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کوششیں کی جا رہی ہیں ۔
معدنی وسائل سے مالا مال پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں حالات کو بہتر کرنے کی کوششوں کے سلسلے میں حکومت نے ناراض قوم بلوچ رہنماؤں کے خلاف سیاسی بنیادوں پر قائم مقدمات ختم کرنے کے اعلان کے علاوہ انھیں مذاکرات کی دعوت دے رکھی ہے۔
جن قوم پرست بلوچ رہنماؤں کے خلاف مقدمات ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ان میں سوئیزرلینڈ میں مقیم براہمداغ بگٹی اور لندن میں رہائش پذیر حربیار مری بھی شامل ہیں اور یہ دونوں بلوچستان کی آزادی کے حامی ہیں۔
بلوچستان کے معاملے کو حل کرنے کے لیے حکومت پاکستان پر گزشتہ ماہ اس وقت دباؤ میں اضافہ ہوا جب امریکی کانگریس کے ایک رکن نے آزاد بلوچستان کے حق میں قرارداد ایوان نمائندگان میں بحث کے لیے پیش کی تھی۔ تاہم پاکستان نے اس پر شدید احتجاج کیا تھا اور امریکی انتظامیہ نے اس قرارداد سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس میں موجود دونوں جماعتیں اس کی مخالفت کرتی ہیں۔