کوئٹہ —
پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں آنے والے شدید زلزلے کو تین ماہ گزرنے کے بعد بھی اس سے متاثرہ افراد کی پوری طرح بحالی ممکن نہین ہوسکی ہے اور یہ لوگ سخت سرد موسم میں بھی خیموں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
ستمبر میں 7.6 شدت کے زلزلے سے صوبے کے چھ اضلاع متاثر ہوئے تھے جن میں سب سے زیادہ نقصان آواران میں ہوا۔ اس زلزلے سے کم ازکم چار سو افراد ہلاک اور اتنی ہی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے جب کہ بڑے پیمانے پر مکانات منہدم ہوگئے تھے۔
درجہ حرارت میں کمی کے ساتھ بڑھتی ہوئی سردی ان خیموں میں مقیم زلزلہ متاثرین کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کر رہی ہے جس سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
آواران کے ایک سرکاری اسپتال کی ڈاکٹر راحت جبین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے ہاں آنے والے مریضوں میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے جو سخت سردی کی وجہ سے مختلف امراض کا شکار ہوتے ہیں۔
’’سب سے زیادہ بیماریاں جو دیکھنے میں آہی ہیں جن میں نمونیا، نزلہ اور کھانسی وغیرہ ہیں خصوصاً بچوں اور خواتین میں اور حاملہ خواتین میں یہ بہت ہو رہی ہیں، خواتین ڈپریشن کا بھی شکار ہیں اور اس سے ان کا بلڈ پریشر بھی بہت بڑھ جاتا ہے۔‘‘
صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ متاثرین زلزلہ کی امداد اور بحالی پر کام کررہی ہے۔
صوبائی حکومت کے ترجمان جان محمد بلیدی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ’’سرد موسم میں ان لوگوں کے لیے کمبل، گرم کپڑے بھی مہیا کیے گئے تاکہ ان لوگوں پریشانی میں اضافہ نہ ہو۔‘‘
آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے چھوٹے مگر رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ سمیت متعدد شہر فالٹ زون پر واقع ہیں جہاں زیرزمین ہونے والی تبدیلی سے زلزلوں کے زیادہ خطرات لاحق ہوتے ہیں۔
کوئٹہ میں 1935ء میں آنے والے زلزلے میں لگ بھگ پچاس ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے جب کہ شہر پوری طرح تباہ ہوگیا تھا۔
حالیہ برسوں میں بھی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں زلزلوں سے سینکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ 2009ء میں شمالی ضلع زیارت میں آنے والے زلزلے سے 250 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
ستمبر میں 7.6 شدت کے زلزلے سے صوبے کے چھ اضلاع متاثر ہوئے تھے جن میں سب سے زیادہ نقصان آواران میں ہوا۔ اس زلزلے سے کم ازکم چار سو افراد ہلاک اور اتنی ہی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے جب کہ بڑے پیمانے پر مکانات منہدم ہوگئے تھے۔
درجہ حرارت میں کمی کے ساتھ بڑھتی ہوئی سردی ان خیموں میں مقیم زلزلہ متاثرین کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کر رہی ہے جس سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
آواران کے ایک سرکاری اسپتال کی ڈاکٹر راحت جبین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے ہاں آنے والے مریضوں میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے جو سخت سردی کی وجہ سے مختلف امراض کا شکار ہوتے ہیں۔
’’سب سے زیادہ بیماریاں جو دیکھنے میں آہی ہیں جن میں نمونیا، نزلہ اور کھانسی وغیرہ ہیں خصوصاً بچوں اور خواتین میں اور حاملہ خواتین میں یہ بہت ہو رہی ہیں، خواتین ڈپریشن کا بھی شکار ہیں اور اس سے ان کا بلڈ پریشر بھی بہت بڑھ جاتا ہے۔‘‘
صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ متاثرین زلزلہ کی امداد اور بحالی پر کام کررہی ہے۔
صوبائی حکومت کے ترجمان جان محمد بلیدی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ’’سرد موسم میں ان لوگوں کے لیے کمبل، گرم کپڑے بھی مہیا کیے گئے تاکہ ان لوگوں پریشانی میں اضافہ نہ ہو۔‘‘
آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے چھوٹے مگر رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ سمیت متعدد شہر فالٹ زون پر واقع ہیں جہاں زیرزمین ہونے والی تبدیلی سے زلزلوں کے زیادہ خطرات لاحق ہوتے ہیں۔
کوئٹہ میں 1935ء میں آنے والے زلزلے میں لگ بھگ پچاس ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے جب کہ شہر پوری طرح تباہ ہوگیا تھا۔
حالیہ برسوں میں بھی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں زلزلوں سے سینکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ 2009ء میں شمالی ضلع زیارت میں آنے والے زلزلے سے 250 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔