کوئٹہ —
پاکستان میں انتخابی عمل کے نگران ادارے الیکشن کمیشن نے ملک کے جنوبی مغربی صوبہ بلوچستان میں متعدد مسائل کے باوجود بلدیاتی انتخابات وقتِ مقررہ پر شفاف انداز میں منعقد کروانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات کے جلد انعقاد پر زور اور صوبائی حکومت سے مشاورت کے بعد گزشتہ ماہ الیکشن کمیشن نے بلوچستان میں یہ انتخابات 7 دسمبر کو کروانے کا اعلان کیا۔
صوبائی الیکشن کمشنر سلطان بایزید نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ حکومتِ بلوچستان اور متعلقہ اداروں نے انتہائی مختصر وقت میں بلدیاتی انتخابات منعقد کرنے کے اس عمل کو چیلنج سمجھ کر قبول کیا ہے۔
’’عام انتخابات کی نسبت ان (بلدیاتی انتخابات) میں 10 گنا زیادہ کام ہے۔ اس میں حلقے زیادہ ہیں، اب ہم نے 7,189 حلقوں میں انتخابات کروانے ہیں۔ دوسری بات، صوبائی حکومت نے جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا ہے اور براہ راست انتخابات کے لیے کم از کم 70 لاکھ بیلٹ پیپر کی چھپائی ہونی ہے ... تو قلیل مدت میں اتنی بڑی ذمہ داری ہے، پہاڑ جیسے مسائل ہیں لیکن الیکشن کمیشن نے بروقت انتخابات کے انعقاد کا عزم کر رکھا ہے۔‘‘
سلطان بایزید نے بتایا کہ بلدیاتی انتخابات کے لیے صوبہ بھر میں اہل ووٹروں کی تعداد تقریباً 33 لاکھ ہے۔
صوبائی الیکشن کمشنر نے کہا کہ انتظامی اُمور کے علاوہ بلوچستان میں سلامتی کی صورت حال اور دیگر مسائل نے بھی انتخابی عمل کو مشکل بنا رکھا ہے۔
’’یہاں مخصوص علاقے ہیں جہاں امن و امان کا مسئلہ ہے جب کہ دیگر عوامل بھی ہیں جیسا کہ آواران اور دوسرے علاقوں میں زلزلہ آیا ... (لیکن) صوبائی حکومت نے ہمیں یقین دہانی کروائی ہے کہ امن و امان کے حوالے سے تمام وسائل بروئے کار لائیں گے۔ ہم عام انتخابات بھی تقریباً ایسے ہی حالات میں کروانے میں کامیاب رہے تھے۔‘‘
بلوچستان کے سیکرٹری داخلہ اسد رحمان گیلانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں تسلیم کیا کہ سلامتی کی صورت حال تشویش ناک معاملہ ہے، اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد صرف پُر امن ماحول میں ہی ممکن ہے۔
’’اگرچہ ابھی ایک مہینہ باقی ہے لیکن انتظامیہ اور پولیس کے تمام حکام کو ہدایات جا چکی ہیں، جو حساس پولنگ اسٹیشنز ہیں ان کے بارے میں خصوصی ہدایات جاری کی ہیں کہ وہاں پولنگ کے عملے، پولنگ مواد اور ووٹروں کے تحفظ کے لیے کیا کرنا ہے۔ اس سلسلے میں اچھی بات یہ ہے کہ مئی 2013ء کے عام انتخابات میں ہماری ریہرسل ہو چکی ہے، اور جو انتظامات (پہلے کیے) تھے تقریباً وہی انتظامات اب کریں گے۔‘‘
اسد رحمان گیلانی نے کہا کہ امن و امان قائم رکھنے کے لیے صوبائی حکومت کو پولیس، سول آرمڈ فورسز اور فوج کا مکمل تعاون حاصل ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ ممکنہ خطرات سے بچنے کے لیے سویلین اور عسکری انٹیلی جنس اداروں کی خفیہ معلومات کو یکجا کر کے ضروری کارروائیاں بھی کی جا رہی ہیں، جن میں مفرور ملزمان کی گرفتاریوں کا عمل بھی شامل ہے۔
عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات کے جلد انعقاد پر زور اور صوبائی حکومت سے مشاورت کے بعد گزشتہ ماہ الیکشن کمیشن نے بلوچستان میں یہ انتخابات 7 دسمبر کو کروانے کا اعلان کیا۔
صوبائی الیکشن کمشنر سلطان بایزید نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ حکومتِ بلوچستان اور متعلقہ اداروں نے انتہائی مختصر وقت میں بلدیاتی انتخابات منعقد کرنے کے اس عمل کو چیلنج سمجھ کر قبول کیا ہے۔
’’عام انتخابات کی نسبت ان (بلدیاتی انتخابات) میں 10 گنا زیادہ کام ہے۔ اس میں حلقے زیادہ ہیں، اب ہم نے 7,189 حلقوں میں انتخابات کروانے ہیں۔ دوسری بات، صوبائی حکومت نے جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا ہے اور براہ راست انتخابات کے لیے کم از کم 70 لاکھ بیلٹ پیپر کی چھپائی ہونی ہے ... تو قلیل مدت میں اتنی بڑی ذمہ داری ہے، پہاڑ جیسے مسائل ہیں لیکن الیکشن کمیشن نے بروقت انتخابات کے انعقاد کا عزم کر رکھا ہے۔‘‘
سلطان بایزید نے بتایا کہ بلدیاتی انتخابات کے لیے صوبہ بھر میں اہل ووٹروں کی تعداد تقریباً 33 لاکھ ہے۔
صوبائی الیکشن کمشنر نے کہا کہ انتظامی اُمور کے علاوہ بلوچستان میں سلامتی کی صورت حال اور دیگر مسائل نے بھی انتخابی عمل کو مشکل بنا رکھا ہے۔
’’یہاں مخصوص علاقے ہیں جہاں امن و امان کا مسئلہ ہے جب کہ دیگر عوامل بھی ہیں جیسا کہ آواران اور دوسرے علاقوں میں زلزلہ آیا ... (لیکن) صوبائی حکومت نے ہمیں یقین دہانی کروائی ہے کہ امن و امان کے حوالے سے تمام وسائل بروئے کار لائیں گے۔ ہم عام انتخابات بھی تقریباً ایسے ہی حالات میں کروانے میں کامیاب رہے تھے۔‘‘
بلوچستان کے سیکرٹری داخلہ اسد رحمان گیلانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں تسلیم کیا کہ سلامتی کی صورت حال تشویش ناک معاملہ ہے، اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد صرف پُر امن ماحول میں ہی ممکن ہے۔
’’اگرچہ ابھی ایک مہینہ باقی ہے لیکن انتظامیہ اور پولیس کے تمام حکام کو ہدایات جا چکی ہیں، جو حساس پولنگ اسٹیشنز ہیں ان کے بارے میں خصوصی ہدایات جاری کی ہیں کہ وہاں پولنگ کے عملے، پولنگ مواد اور ووٹروں کے تحفظ کے لیے کیا کرنا ہے۔ اس سلسلے میں اچھی بات یہ ہے کہ مئی 2013ء کے عام انتخابات میں ہماری ریہرسل ہو چکی ہے، اور جو انتظامات (پہلے کیے) تھے تقریباً وہی انتظامات اب کریں گے۔‘‘
اسد رحمان گیلانی نے کہا کہ امن و امان قائم رکھنے کے لیے صوبائی حکومت کو پولیس، سول آرمڈ فورسز اور فوج کا مکمل تعاون حاصل ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ ممکنہ خطرات سے بچنے کے لیے سویلین اور عسکری انٹیلی جنس اداروں کی خفیہ معلومات کو یکجا کر کے ضروری کارروائیاں بھی کی جا رہی ہیں، جن میں مفرور ملزمان کی گرفتاریوں کا عمل بھی شامل ہے۔