کوئٹہ —
پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں منگل کی صبح ایک قبائلی رہنما کے گھر پر مسلح افراد کے حملے میں کم ازکم سات افراد ہلاک ہوگئے۔
ضلع ڈیرہ بگٹی کے اسسٹنٹ کمشنر عبدالجبار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لوٹی گیس فیلڈ کے علاقے میں بگٹی قبائل کے ایک ذیلی قبیلے کے سربراہ وڈیرہ ٹھارا خان کے گھر پر نامعلوم مسلح افراد نے گھس کر اندھا دھند فائرنگ کی اور موقع سے فرار ہوگئے۔
مرنے والوں میں ٹھارا خان کے علاوہ تین خواتین اور دو کم سن بچے بھی شامل ہیں جب کہ ایک معمر خاتون کو شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔
عبدالجبار کا کہنا تھا کہ فوری طور پر واقعے کے محرکات کا تعین نہیں کیا جاسکتا لیکن ایف سی اور لیویز کے اہلکار علاقے میں ناکہ بندی کرکے حملہ آوروں کی تلاش میں مصروف ہیں۔
وڈیرہ ٹھارا خان حکومت کے حامی تھے اور ان کا شمار انتظامیہ سے تعاون کرنے والے علاقے کے سرکرہ لوگوں میں ہوتا تھا۔
ڈیرہ بگٹی بزرگ بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کا آبائی علاقہ ہے جنہیں اگست 2006ء میں ایک مبینہ فوجی آپریشن میں ہلاک کردیا گیا تھا۔ ان کی ہلاکت کے بعد اس علاقے میں عسکریت پسندوں کی طرف سے پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ان واقعات میں سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں سمیت تقریباً دو سو افراد ہلاک ہوئے جب کہ بگٹی قبائل کے ایک لاکھ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
بلوچستان کے اس ضلع کی تحصیلوں سوئی، لوٹی، پیر کوہ اور اوچ میں گیس کے بڑے ذخائر ہیں جہاں گیس کے حصول کے لیے تقریباً 90 کنویں لگائے گئے ہیں جو کہ مقامی لوگوں کے روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ یہاں پر کام کرنے والوں کو اکثریت کا تعلق بھی بگٹی قبائل سے ہے۔
ڈیرہ بگٹی میں ہونے والے خونریز واقعات کی ذمہ داری اکثر اکبر بگٹی کے پوتے براہمداغ بگٹی کی کالعدم بلوچ ریپبلکن آرمی قبول کرتی رہی ہے۔
صوبے کے نومنتخب وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ امن و امان کی بحالی کے لیے ناراض بلوچ رہنماؤں سے بات چیت کے عزم کا اظہار کرچکے ہیں لیکن اس میں تاحال انھیں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔
ضلع ڈیرہ بگٹی کے اسسٹنٹ کمشنر عبدالجبار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لوٹی گیس فیلڈ کے علاقے میں بگٹی قبائل کے ایک ذیلی قبیلے کے سربراہ وڈیرہ ٹھارا خان کے گھر پر نامعلوم مسلح افراد نے گھس کر اندھا دھند فائرنگ کی اور موقع سے فرار ہوگئے۔
مرنے والوں میں ٹھارا خان کے علاوہ تین خواتین اور دو کم سن بچے بھی شامل ہیں جب کہ ایک معمر خاتون کو شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔
عبدالجبار کا کہنا تھا کہ فوری طور پر واقعے کے محرکات کا تعین نہیں کیا جاسکتا لیکن ایف سی اور لیویز کے اہلکار علاقے میں ناکہ بندی کرکے حملہ آوروں کی تلاش میں مصروف ہیں۔
وڈیرہ ٹھارا خان حکومت کے حامی تھے اور ان کا شمار انتظامیہ سے تعاون کرنے والے علاقے کے سرکرہ لوگوں میں ہوتا تھا۔
ڈیرہ بگٹی بزرگ بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کا آبائی علاقہ ہے جنہیں اگست 2006ء میں ایک مبینہ فوجی آپریشن میں ہلاک کردیا گیا تھا۔ ان کی ہلاکت کے بعد اس علاقے میں عسکریت پسندوں کی طرف سے پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ان واقعات میں سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں سمیت تقریباً دو سو افراد ہلاک ہوئے جب کہ بگٹی قبائل کے ایک لاکھ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
بلوچستان کے اس ضلع کی تحصیلوں سوئی، لوٹی، پیر کوہ اور اوچ میں گیس کے بڑے ذخائر ہیں جہاں گیس کے حصول کے لیے تقریباً 90 کنویں لگائے گئے ہیں جو کہ مقامی لوگوں کے روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ یہاں پر کام کرنے والوں کو اکثریت کا تعلق بھی بگٹی قبائل سے ہے۔
ڈیرہ بگٹی میں ہونے والے خونریز واقعات کی ذمہ داری اکثر اکبر بگٹی کے پوتے براہمداغ بگٹی کی کالعدم بلوچ ریپبلکن آرمی قبول کرتی رہی ہے۔
صوبے کے نومنتخب وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ امن و امان کی بحالی کے لیے ناراض بلوچ رہنماؤں سے بات چیت کے عزم کا اظہار کرچکے ہیں لیکن اس میں تاحال انھیں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔