پاکستان میں 26 اکتوبر کو آنے والے 7.5 شدت کے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں حکومت کی امدادی کارروائیاں جاری ہیں اور دشوار گزار علاقوں میں فضائیہ کی مدد سے کھانے پینے کی اشیاء اور خیمے پہنچائے جا رہے ہیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ کالعدم تنظیموں کو زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں کسی طرح کی امدادی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
’’ ہمیں نہ کسی کی مدد چاہیئے اور نا ہی کسی قسم کی کالعدم تنظیم کو یہ موقع دیا جائے گا کہ وہ زلزلے یا سیلاب کی آڑ میں اپنی زہر ناکی جس کو وہ پھیلاتے ہیں اس کو پھیلانے کی کوشش کریں۔ پاکستان میں وہ دور گزر گیا ہے، ضرب عضب کے نتیجے میں اس طرح کی تنظیمیں اپنی کمر بھی تڑوا چکی ہیں اور حکومت اپنے تمام کام اپنے حکومتی اداروں کے ذریعے کرتی ہے۔‘‘
ماضی میں پاکستان میں آنے والے سیلاب اور زلزلے کے دوران بہت سی کالعدم تنظمیں بھی امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیتی رہیں۔
لیکن گزشتہ سال دسمبر میں پشاور میں فوج کے زیر انتظام اسکول پر طالبان کے مہلک حملے کے بعد پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں تیزی آئی ہے۔
حکومت نے انسداد دہشت گردی کا قومی لائحہ عمل بھی وضع کیا ہے، جس میں ناصرف دہشت گردوں بلکہ اُن کے معاونین کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔
واضح رہے کہ حکومت 60 سے زائد تنظیموں کو کالعدم قرار دے چکی ہے۔
دریں اثناء وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کا کہنا تھا کہ اب تک زلزلے سے جو تباہی ہوئی اُس سے نمٹنے کے لیے حکومت کے پاس وسائل موجود ہیں۔
’’پاکستان پورے وسائل رکھتا ہے، کہ اپنے مصیبت زدہ بہن بھائیوں کی مدد کر سکے اس کے لیے ہمیں کسی کے سامنے مدد مانگنے کی، ہاتھ پھیلانے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے نا صرف ہم اپنے بہن بھائیوں کے اس مصیبت کے وقت میں پورے طریقے میں کام آ سکتے ہیں ۔۔۔ اس کے لیے ہر طرح کا سامان موجود ہے۔‘‘
اگرچہ حالیہ زلزلے کی شدت خاصی زیادہ تھی لیکن 10 سال قبل اکتوبر 2005ء میں آنے والے 7.6 شدت کے زلزلے کے مقابلے اس مرتبہ جانی نقصان بہت کم ہوا۔
زلزلے سے سب سے زیادہ پاکستان کے شمال مغربی صوبہ پختونخواہ کے پہاڑی اضلاع چترال، شانگلہ اور مالاکنڈ متاثر ہوئے۔
حکام کے مطابق زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں مواصلات کا نظام بحال کر دیا گیا ہے۔
لیکن اس کے باوجود جانی نقصان میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کیوں کہ بہت سے پہاڑی علاقے ایسے ہیں جہاں سے اس بارے میں خبریں آ رہی ہیں۔