دو سال سے زائد عرصے سے شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کی طرف سے پابندی کے باعث یہاں بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے نہیں پلائے جا سکے جس کی وجہ سے پاکستان میں پولیو سے متاثرہ کیسز کی اکثریت یہیں سے رپورٹ ہوتی رہی ہے۔
شدت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی کے باعث شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کر کے خیبرپختونخواہ کے بندوبستی علاقوں میں پہنچنے والے افراد کو رجسٹریشن کے وقت پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جاتے رہے لیکن رواں ہفتے سے محکمہ صحت نے نقل مکانی کرنے والے تقریباً دو لاکھ بچوں کو انسداد پولیو کے قطرے پلانے کی باقاعدہ مہم کا آغاز بھی کر دیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ یہ ایک اچھا موقع ہے کہ پولیو ویکسین پینے سے رہ جانے والے بچوں کو قطرے پلائے جائیں اور ساتھ ہی ساتھ مقامی آبادی کے بچوں کو بھی ویکسین دے کر پولیو کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد لی جاسکے۔
حکام کے مطابق اس خدشے کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں نقل مکانی سے پولیو کا وائرس بھی منتقل ہو سکتا ہے اور اسی تناظر میں یہ مہم شروع کی گئی ہے جب کہ اسپتالوں میں بھی پولیو ویکسین کے لیے خصوصی کاؤنٹر بنائے گئے ہیں۔
بنوں کے ایک سرکاری اسپتال میں پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے میں مصروف اہلکار حکمت خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ قبائلی لوگ اب بھی بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے میں خوف محسوس کرتے ہیں جس کی وجہ شدت پسندوں کی طرف سے انسداد پولیو سے متعلق کیا جانے والا پروپیگنڈا اور قطرے پلوانے والوں کو سزا دینے کے اعلانات ہیں۔
"یہ لوگ جب آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اگر یہ کوئی اچھی چیز ہے تو دے دو مگر بچے کی انگلی پر نشان نہیں لگانا، ہمیں بتایا گیا ہے کہ یہ اچھی چیز نہیں ویسے بھی ہم مشکل میں ہیں اور مشکل پڑ جائے گی۔"
انھوں نے بتایا کہ ویکسینیشن سنٹر پر روزانہ تقریباً 40 بچے آ رہے ہیں اور ان کے والدین کو اس بات پر قائل کیا جاتا ہے کہ یہ ویکسین بچے کی صحت کے لیے بہت ضروری چیز ہے۔
قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کی طرف سے پولیو ویکسین کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے پروپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے کہ یہ بچوں کو بانجھ پن کا شکار کرنے کی مغربی سازش ہے۔
تاہم پاکستان میں حکومتی عہدیدار اور ماہرین صحت یہ کہتے آئے ہیں کہ تمام مسلمان ملکوں نے اسی ویکسین کے ذریعے پولیو کے وائرس پر قابو پایا اور اپنے اس موقف کو تقویت دینے کے لیے امام کعبہ کا ریکارڈ شدہ بیان بھی جاری کیا جاتا رہا ہے۔
نائیجیریا اور افغانستان کے علاوہ پاکستان دنیا کا وہ تیسرا ملک ہے جہاں انسانی جسم کو اپاہج کردینے والی بیماری پولیو کے وائرس پر تاحال پوری طرح قابو نہیں پایا جاسکا ہے جب کہ مئی میں عالمی ادارہ صحت کی سفارش پر بیرون ملک کا سفر کرنے والے پاکستانیوں کے لیے پولیو ویکسینیشن کا کارڈ دکھانا بھی لازمی قرار دیا جاچکا ہے۔
دریں اثناء ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں جمعہ کو پولیو کا ایک اور کیس سامنے آیا ہے جس سے کراچی میں رواں سال پولیو سے متاثرہ کیسز کی تعداد سات ہو گئی ہے جب کہ ملک میں پولیو کیسز کی تعداد 84 تک پہنچ گئی ہے۔