پاکستان کے 43 میں سے 42 کنٹونمنٹ بورڈز میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے غیر سرکاری نتائج سے حکومت مخالف پاکستان تحریک انصاف ملکی سیاست میں بظاہر دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری ہے اور مبصرین اسے جمہوریت کے لیے ایک صحت مند پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔
ہفتہ کو 42 کنٹونمنٹ بورڈ کی 199 وارڈز کے لیے انتخابات ہوئے جن کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق حکمران مسلم لیگ نے سب سے زیادہ یعنی 67 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جب کہ تحریک انصاف کے حصے میں 43 نشستیں آئیں۔
متحدہ قومی موومنٹ نے 19، پیپلز پارٹی نے سات، جماعت اسلامی نے پانچ اور عوامی نیشنل پارٹی نے دو نشستوں پر کامیابی حاصل کی جب کہ 55 سے زائد وارڈز میں آزاد امیدوار کامیاب قرار پائے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ فوج کے زیر انتظام علاقوں میں 17 سال بعد ہونے والے یہ انتخابات پہلی مرتبہ جماعتی بنیادوں پر منعقد ہوئے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ان انتخابات سے ملک میں سیاسی افق پر فی الوقت تبدیلی تو نظر آ رہی ہے لیکن یہ کتنی دیرپا ہو گی اس کے بارے میں کچھ بھی کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا۔
سینیئر تجزیہ کار رسول بخش رئیس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کو پنجاب اور خیبر پختونخواہ جہاں ان کی صوبائی حکومتیں بھی ہیں، ملنے والی کامیابی یہ ظاہر کرتی ہے کہ لوگوں نے ان جماعتوں کی کارکردگی پر اعتماد کیا ہے لیکن اس سارے عمل میں سابقہ حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی بہت پیچھے جاتی نظر آئی ہے۔
"پاکستان پییلز پارٹی بہت پیچھے چلی گئ ہے، نہ لوگو ں کا اس پر اعتماد ہے نہ وہ لوگ جو پیپلز پارٹی کا سہارا لیتے تھے اس کا نام استعمال کرکے انتخابات میں حصہ لیتے تھے، وہ اب اس کو قابل اعتبار نہیں سمجھتے۔ دوسری بڑی تبدیلی بڑی واضح ہے پاکستان تحریک انصاف دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری ہے نہ صرف پنجاب میں بلکہ پورے پاکستان میں، اس کے آگے جانے کے امکانات کا انحصار اس بات پر ہے کہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں اس کی کارکردگی کیسی رہتی ہے۔ دوسری چیز یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی کارکردگی پنجاب میں کیسی رہتی ہے کیا لوگ اس کی کارکردگی کو سراہتے ہیں۔ میں سجمھتا ہوں کہ افہام و تفہیم سے جس طرح پاکستان کے اندر سیاست ہو رہی ہے اس سے پاکسان میں جمہوریت اور نئی سیاسی قیادتوں کے ابھرنے کے امکانات کے بارے میں ایک امید نظر آتی ہے"۔
مقامی حکومتوں کی تشکیل کے ایک عرصے سے سماجی حلقوں کی طرف سے یہ کہہ کر زور دیا جاتا رہا ہے کہ حقیقی جمہوریت کے لیے اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی بہت اہم ہے۔