پاکستان نے باضابطہ طور پر تصدیق کر دی ہے کہ صدر آصف علی زرداری 20 مئی سے امریکہ کے شہر شکاگو میں شروع ہونے والے نیٹو کے دو روزہ سربراہ اجلاس میں شرکت کریں گے۔
اس اجلاس میں 2014ء کے اختتام پر افغانستان سے غیر ملکی لڑاکا افواج کے انخلاء کے بعد بین الاقوامی برادری کے تعاون پر بحث کی جائے گی اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل اینڈرس راسموسن نے منگل کو ٹیلی فون کر کے پاکستانی صدر کو اجلاس میں شرکت کی باضابطہ دعوت دی تھی۔
دفتر خارجہ سے جمعرات کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ صدر زرداری شکاگو کانفرنس سے خطاب کے علاوہ اجلاس میں شریک عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کریں گے۔ وزیرخارجہ حنا ربانی کھر اور سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی بھی صدر کے ہمراہ ہوں گے۔
’’ڈی سی سی (کابینہ کی دفاعی کمیٹی) اور وفاقی کابینہ کی طرف سے (صدر) کو بھیجے گئے دعوت نامے کی توثیق کے بعد اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کیا گیا ہے۔‘‘
ایک علیحدہ بیان میں پاک امریکہ مذاکرات کے بارے میں ذرائع ابلاغ کی قیاس آرائیوں پر مبنی خبروں کو مسترد کرتے ہوئے وزارت خارجہ نے واضح کیا ہے کہ حکومت پارلیمان کی سفارشات پر من وعن عمل کرے گی۔
’’کابینہ کی دفاعی کمیٹی میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ نیٹو سپلائی لائنز، (امریکی) معافی، سرحدوں کے لیے نئے قواعد اور ڈرون حملوں کی بندش پر شفاف انداز میں مذاکرات جاری ہیں۔‘‘
دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان تمام اُمور پر امریکہ کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے اور ’’فیصلے بہترین قومی مفاد میں کیے جائیں گے‘‘۔
وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی نے اسلام آباد میں ایک تقریب کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایک بار پھر کہا ہے کہ صدر زرداری کو نیٹو کانفرنس میں غیر مشروط شرکت کی دعوت دی گئی ہے جس کا پاکستان نے خیر مقدم کیا ہے۔
’’صدر شکاگو جائیں گے اور اجلاس میں شرکت کریں گے۔ مگر امریکہ کے ساتھ ہمارے مذاکرات جاری ہیں اور ہم نے تمام متعلقہ اداروں اور وزارتوں کو اس عمل کو مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔‘‘
شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کرنے کے لیے امریکہ کی جانب سے تسلسل سے کیے جانے والے مطالبے کے جواب میں پاکستانی وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ پارلیمانی سفارشات میں بھی حکومت سے کہا گیا ہے کہ غیر ملکی جنگجوؤں کو ملک بدر کیا جائے۔
’’اب یہ کام فوج اور متعلقہ اداروں کا ہے کہ وہ کب اور کس وقت (آپریشن) کرنا چاہتے ہیں، اس بارے میں ہمیں ابھی فیصلہ کرنا باقی ہے۔‘‘
سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاک امریکہ مذاکرات میں نیٹو افواج کو رسد کی ترسیل کے قافلوں پر پاکستان کی جانب سے محصولات کی ادائیگی کا مطالبہ سپلائی لائن کی بحالی میں تاخیر کی بڑی وجہ ہے۔
جمعرات کو وزیر مملکت برائے مواصلات دوست محمد مزاری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ ایک عشرے سے نیٹو کے قافلے پاکستان کے راستے افغانستان سامان لے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے قومی شاہراوں کو ڈیڑھ ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ وزارت خارجہ کے توسط سے نقصانات کے اس تخمینے سے امریکی عہدے داروں کو آگاہ کر دیا گیا ہے جس میں فی کنٹینر پچیس سو ڈالر یا تقریباً دو لاکھ تیس ہزار روپے ٹیکس عائد کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔
’’پاکستان پچیس سو ڈالر فی ٹرک مطالبہ کر رہا ہے لیکن جب دو فریق مذاکرات کی میز پر بیٹھتے ہیں تو اس میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔‘‘