پاکستان میں مرکزی حکومت اور حزب مخالف نے چیف الیکشن کمشنر کے لیے تین ناموں پر اتفاق کیا ہے جس کے بعد اس اہم ادارے کے مستقل سربراہ کی تقرری کا معاملہ جلد حل ہونے کی امید ظاہر کی جارہی ہے۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ اور وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بدھ کو صحافیوں کو بتایا کہ اتفاق رائے سے تین نام منتخب کیے گئے ہیں جو کہ اب قواعد و ضوابط کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی کو بھیجے جائیں گے۔
خورشید شاہ نے اس منصب کے لیے نامزد کردہ تین سابق جج صاحبان کے ناموں کا اعلان کیا جن میں سردار محمد رضا، طارق پرویز اور تنویر احمد خان شامل ہیں۔
خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ اگرچہ آئین کے مطابق یہ قائد حزب اقتدار اور قائد حزب اختلاف کے درمیان مشاورت ضروری ہے لیکن انھوں نے دیگر پارلیمانی جماعتوں سے بھی مشاورت کی ہے۔
"سارے نام معتبر ہیں لیکن یہ کمیٹی کی صوابدید ہے کہ وہ کس کا انتخاب کرتی ہے۔۔۔آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ آپ دوسری جماعتوں سے بھی مشاورت کرتے پھریں مگر ہم نے اپنا اخلاقی فرض سمجھا اور روایت کو توڑتے ہوئے ہم نے سب کے ساتھ مشورہ کیا۔"
16 ماہ قبل فخر الدین جی ابراہیم کے مستعفی ہونے سے چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ خالی تھا جس پر سپریم کورٹ کے جج عبوری طور پر فرائض انجام دیتے آرہے ہیں جو کہ ان کے لیے ایک اضافی ذمہ داری ہے۔
عدالت عظمیٰ نے رواں ہفتے ہی حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ پانچ دسمبر تک اس عہدے کے لیے کسی کو نامزد کریں بصورت دیگر وہ الیکشن کمیشن سے اپنے جج کو واپس بلا لے گی۔
وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے ناموں پر اتفاق کے بعد کے مرحلے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ یہ نام اسپیکر قومی اسمبلی کو بھیجے جائیں گے جو چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لیے بنائی گئی کمیٹی کو یہ نام ارسال کریں گے جو اس پر فیصلہ کرے گی۔
سردار محمد رضا سپریم کورٹ کے سابق جج ہیں جو ان دنوں وفاقی شریعی عدالت کے چیف جسٹس کے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔ طارق پرویز پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہنے کے علاوہ سپریم کورٹ کے جج بھی رہ چکے ہیں جب کہ تنویر احمد خان بھی عدالت عظمیٰ میں جج رہے ہیں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ سابقہ دور حکومت میں پیپلز پارٹی کی حکومت اور اس وقت کی حزب مخالف کے علاوہ دیگر پارلیمانی جماعتوں نے فخر الدین جی ابراہیم کے نام پر اتفاق کیا تھا اور انھیں ملک کا ایک غیر متنازع چیف الیکشن کمشنر قرار دیا جاتا رہا۔
لیکن مئی 2013ء کے عام انتخابات میں تقریباً سب ہی سیاسی جماعتوں کی طرف سے انتخابات میں دھاندلی اور بے ضابطگیوں کی شکایات سامنے آئیں اور حکومت مخالف جماعت تحریک انصاف نے فخر الدین کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔