اسلام آباد —
پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
انھوں نے بدھ کو اپنا استعفیٰ صدر آصف علی زرداری کو بھجوا دیا۔
فخر الدین ابراہیم کو گزشتہ حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں کی مشاورت کے بعد متفقہ طور پر چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا تھا۔ 23 جولائی 2012ء کو وہ اس عہدے پر فائز ہوئے جس کی آئینی معیاد 2017ء تک تھی۔
اپنے استعفے میں فخر الدین ابراہیم نے لکھا ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جمہوری انداز میں انتقال اقتدار کا عمل مکمل ہوچکا ہے اور اب نئی پارلیمان کو موقع دیا جائے کہ وہ اتفاق رائے سے نیا چیف الیکشن کمشنر منتخب کرے۔ ان کے بقول نئے عہدیدار کو 2018ء کے عام انتخابات منعقد کروانے کے لیے مناسب وقت مل سکے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ دھمکیوں کے باوجود الیکشن کمیشن نے ملک میں عام انتخابات کروائے اور انھوں نے آئین و قانون کے مطابق پوری طرح اپنی ذمہ داری ادا کی۔
11 مئی کے عام انتخابات کے بعد انتخابات میں بے ضابطگیوں اور دھاندلی کے الزامات سامنے آنے کے علاوہ رواں ہفتے ہونے والے صدارتی انتخابات پر حزب مخالف کی مختلف جماعتوں کی طرف سے کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
لیکن ایک روز قبل صدارتی انتخاب کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بھی چیف الیکشن کمشنر نے اپنی ذمہ داریوں کی بطریق احسن بجا آوری کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا۔
’’الیکشن کمیشن کا کام ہے کہ آزادانہ و شفاف انتخابات کے انعقاد کروائے، پھر وہاں اگر کوئی امیدوار گڑبڑ کرتا ہے تو الیکشن کمشنر اس کا ذمہ دار نہیں، ہم نے فوج اور رینجرز سے مدد مانگی انھوں نے دی اور آپ سب گواہ ہیں کہ ماسوائے چند حلقوں کے کوئی بڑا معاملہ نہیں ہوا۔‘‘
الیکشن کمیشن پر انتخابات میں بے ضابطگیوں کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے فخر الدین ابراہیم کا کہنا تھا۔
’’ذرا اتنا بھی تو خیال کرو کہ کونسے ہم نے انتخابات کر دیے اتنے سالوں میں۔ انتخابات ایک سلسلہ ہیں، آج تھوڑی غلطی ہوگی کل نہیں ہوگی، تو شکر کرو کہ آج ہم نے ایسے انتخابات کروائے جو کہ مناسب طور پر شفات تھے اب اس سے زیادہ کیا چاہیے۔‘‘
اپنے استعفے میں فخر الدین ابراہیم کا کہنا تھا کہ اس منصب کے حصول کے لیے انھوں نے نہیں بلکہ قانون سازوں نے ان سے رابطے کیے تھے۔ ان کے بقول وہ واحد شخصیت تھے جن پر حکومت اور حزب مخالف سب کا اتفاق تھا۔
انھوں نے بدھ کو اپنا استعفیٰ صدر آصف علی زرداری کو بھجوا دیا۔
فخر الدین ابراہیم کو گزشتہ حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں کی مشاورت کے بعد متفقہ طور پر چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا تھا۔ 23 جولائی 2012ء کو وہ اس عہدے پر فائز ہوئے جس کی آئینی معیاد 2017ء تک تھی۔
اپنے استعفے میں فخر الدین ابراہیم نے لکھا ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جمہوری انداز میں انتقال اقتدار کا عمل مکمل ہوچکا ہے اور اب نئی پارلیمان کو موقع دیا جائے کہ وہ اتفاق رائے سے نیا چیف الیکشن کمشنر منتخب کرے۔ ان کے بقول نئے عہدیدار کو 2018ء کے عام انتخابات منعقد کروانے کے لیے مناسب وقت مل سکے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ دھمکیوں کے باوجود الیکشن کمیشن نے ملک میں عام انتخابات کروائے اور انھوں نے آئین و قانون کے مطابق پوری طرح اپنی ذمہ داری ادا کی۔
11 مئی کے عام انتخابات کے بعد انتخابات میں بے ضابطگیوں اور دھاندلی کے الزامات سامنے آنے کے علاوہ رواں ہفتے ہونے والے صدارتی انتخابات پر حزب مخالف کی مختلف جماعتوں کی طرف سے کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
لیکن ایک روز قبل صدارتی انتخاب کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بھی چیف الیکشن کمشنر نے اپنی ذمہ داریوں کی بطریق احسن بجا آوری کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا۔
’’الیکشن کمیشن کا کام ہے کہ آزادانہ و شفاف انتخابات کے انعقاد کروائے، پھر وہاں اگر کوئی امیدوار گڑبڑ کرتا ہے تو الیکشن کمشنر اس کا ذمہ دار نہیں، ہم نے فوج اور رینجرز سے مدد مانگی انھوں نے دی اور آپ سب گواہ ہیں کہ ماسوائے چند حلقوں کے کوئی بڑا معاملہ نہیں ہوا۔‘‘
الیکشن کمیشن پر انتخابات میں بے ضابطگیوں کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے فخر الدین ابراہیم کا کہنا تھا۔
’’ذرا اتنا بھی تو خیال کرو کہ کونسے ہم نے انتخابات کر دیے اتنے سالوں میں۔ انتخابات ایک سلسلہ ہیں، آج تھوڑی غلطی ہوگی کل نہیں ہوگی، تو شکر کرو کہ آج ہم نے ایسے انتخابات کروائے جو کہ مناسب طور پر شفات تھے اب اس سے زیادہ کیا چاہیے۔‘‘
اپنے استعفے میں فخر الدین ابراہیم کا کہنا تھا کہ اس منصب کے حصول کے لیے انھوں نے نہیں بلکہ قانون سازوں نے ان سے رابطے کیے تھے۔ ان کے بقول وہ واحد شخصیت تھے جن پر حکومت اور حزب مخالف سب کا اتفاق تھا۔