اسلام آباد —
پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم نے جمعرات کو انتخابات سے متعلق انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے ایک اعلٰی سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے آئین کے تحت امن و امان کے قیام کی ذمہ داری صرف اور صرف حکومت کی ہے اور انتخابات کے لیے بھی موجودہ نگراں حکومت کو اس بارے میں موثر اقدامات کرنے چاہیئں
ان کا کہنا تھا کہ ان کی اور کمیشن کے دیگر اراکین کی سب سے بڑی پریشانی اس وقت امن و امان کی صورتحال ہے اور ملک میں بدامنی کی صورت میں کمیشن صاف اور شفاف انتخابات نہیں کروا سکتا۔
’’کیونکہ الیکشن ہیں، پریشانی کے دن ہیں۔ لوگ لڑتے بھی ہیں، تو بالکل سادی بات ہے کہ حکومت! تم مجھے امن و امان بہتر دو، میں شفاف اور آزادانہ الیکشن کروا کر دیتا ہوں۔‘‘
ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی اُن خبروں پر کہ وزارت داخلہ کا کرائسس مینجمنٹ سیل کو الیکشن کمیشن کی نگرانی میں دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، کمیشن سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امن و امان کے قیام کی ذمہ داری کسی صورت الیکشن کمیشن پر عائد نہیں کی جا سکتی۔
سابق حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پہلے ہی اپنے امیدواروں اور دفاتر پر ہونے والے شدت پسندوں کے حملوں کے پیش نظر انتخابات کی شفافیت پر خدشات کا اظہار کر چکی ہیں۔
ان سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ ان خطرات کی وجہ سے وہ دوسری جماعتوں کی طرح بھرپور طریقے سے انتخابی مہم نہیں چلا پا رہیں جو کہ ان کے بقول قبل از انتخابات دھاندلی کے مترادف ہے۔
کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان انتخابات سے قبل ان تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کو عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے انہیں نشانہ بنانے کا اعلان کر چکی ہے۔
عام طور پر آزاد خیال نظریے کی حامی تصور کی جانے والی ان جماعتوں نے تاہم شدت پسندوں کے چیلنج کو قبول کرتے ہوئے انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
لیکن الیکشن کمیشن کے سیکرٹری اشتیاق احمد خان نے اجلاس کے بعد ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں امن و امان سے متعلق اقدامات پر نگراں حکومت کا بھر پور دفاع کرتے موجودہ بدامنی کی ذمہ داری بظاہر سابق حکومت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پر عائد کی۔
’’کوئی بھی حکومت نہیں چاہے گی کہ حالات خراب ہوں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں پوری کوشش کررہی ہیں کہ حالات بہتر ہوں۔ اس کے باوجود کچھ مسائل ہیں لیکن یہ مسائل نگراں حکومت کے زمانے سے نہیں بلکہ اس سے پہلے سے ہیں۔‘‘
نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے بھی جمعرات کو ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی جس میں وزارت داخلہ کے حکام نے بتایا کہ وہ انتخابات کے دوران امن و امان کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے متعلقہ حکومتوں اور اداروں سے رابطے میں ہیں۔
وزیراعظم نے حکام کو امیدواروں اور سایسی رہنماؤں کو بلا تفریق تحفظ فراہم کرنے کی ہدایت بھی جاری کی۔
پاکستان میں پہلی بار جمہوری سیاسی حکومت کے پانچ سال مکمل ہونے کے بعد 11 مئی کو انتخابات ہونے جارہے ہیں اور سکیورٹی کے خطرات کے باوجود تمام اداروں بشمول فوج، عدلیہ اور نگراں حکومت کی طرف سے اس کے بروقت انعقاد کی یقین دہانی کروائی جا چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی اور کمیشن کے دیگر اراکین کی سب سے بڑی پریشانی اس وقت امن و امان کی صورتحال ہے اور ملک میں بدامنی کی صورت میں کمیشن صاف اور شفاف انتخابات نہیں کروا سکتا۔
’’کیونکہ الیکشن ہیں، پریشانی کے دن ہیں۔ لوگ لڑتے بھی ہیں، تو بالکل سادی بات ہے کہ حکومت! تم مجھے امن و امان بہتر دو، میں شفاف اور آزادانہ الیکشن کروا کر دیتا ہوں۔‘‘
ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی اُن خبروں پر کہ وزارت داخلہ کا کرائسس مینجمنٹ سیل کو الیکشن کمیشن کی نگرانی میں دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، کمیشن سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امن و امان کے قیام کی ذمہ داری کسی صورت الیکشن کمیشن پر عائد نہیں کی جا سکتی۔
سابق حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پہلے ہی اپنے امیدواروں اور دفاتر پر ہونے والے شدت پسندوں کے حملوں کے پیش نظر انتخابات کی شفافیت پر خدشات کا اظہار کر چکی ہیں۔
ان سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ ان خطرات کی وجہ سے وہ دوسری جماعتوں کی طرح بھرپور طریقے سے انتخابی مہم نہیں چلا پا رہیں جو کہ ان کے بقول قبل از انتخابات دھاندلی کے مترادف ہے۔
کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان انتخابات سے قبل ان تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کو عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے انہیں نشانہ بنانے کا اعلان کر چکی ہے۔
عام طور پر آزاد خیال نظریے کی حامی تصور کی جانے والی ان جماعتوں نے تاہم شدت پسندوں کے چیلنج کو قبول کرتے ہوئے انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
لیکن الیکشن کمیشن کے سیکرٹری اشتیاق احمد خان نے اجلاس کے بعد ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں امن و امان سے متعلق اقدامات پر نگراں حکومت کا بھر پور دفاع کرتے موجودہ بدامنی کی ذمہ داری بظاہر سابق حکومت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پر عائد کی۔
’’کوئی بھی حکومت نہیں چاہے گی کہ حالات خراب ہوں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں پوری کوشش کررہی ہیں کہ حالات بہتر ہوں۔ اس کے باوجود کچھ مسائل ہیں لیکن یہ مسائل نگراں حکومت کے زمانے سے نہیں بلکہ اس سے پہلے سے ہیں۔‘‘
نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے بھی جمعرات کو ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی جس میں وزارت داخلہ کے حکام نے بتایا کہ وہ انتخابات کے دوران امن و امان کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے متعلقہ حکومتوں اور اداروں سے رابطے میں ہیں۔
وزیراعظم نے حکام کو امیدواروں اور سایسی رہنماؤں کو بلا تفریق تحفظ فراہم کرنے کی ہدایت بھی جاری کی۔
پاکستان میں پہلی بار جمہوری سیاسی حکومت کے پانچ سال مکمل ہونے کے بعد 11 مئی کو انتخابات ہونے جارہے ہیں اور سکیورٹی کے خطرات کے باوجود تمام اداروں بشمول فوج، عدلیہ اور نگراں حکومت کی طرف سے اس کے بروقت انعقاد کی یقین دہانی کروائی جا چکی ہے۔