شہری حقوق کے کارکنوں، ماہرین نفسیات اور ڈاکڑوں کی ایک ٹیم کے مرتب کردہ جائزے کے مطابق پاکستان میں بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ہر چار میں سے ایک بچی جبکہ ہر چھ میں سے ایک بچہ اٹھارہ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے اس کا نشانہ بن رہا ہے۔
غیر سرکاری تنظیم ’’روزن‘‘ کےزیر اہتمام یہ رپورٹ منگل کو اسلام آباد میں جاری کی گئی لیکن اس موقع پر ماہرین نے متنبہ کیا کہ رپورٹ میں دیے گئے اعداد و شمار بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے صرف اندراج شدہ واقعات پر مبنی ہیں جبکہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
ماہرین نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ جنسی استحصال کا شکار ہونے والے بچوں کی درست تعداد سرے سے دستیاب ہی نہیں کیوں کہ سماجی شرم وحیا کی وجہ سے اکثر واقعات سامنے نہیں لائےجاتے جس کی وجہ سے مجرمان بھی سزا سے بچ جاتے ہیں۔
جائزہ رپورٹ کے مطابق جنسی زیادتی بچوں کے ذہنوں پر ایسے نفسیاتی زخم چھوڑتی ہے جس سے ان کی شخصیت نہ صرف جارحانہ ہو جاتی ہے بلکہ وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہوکرمنشیات اور بعض اوقات خود کشی کا راستہ اپنانے پر بھی مجبور ہو جاتے ہیں۔
ماہر نفسیات زہرہ کمال نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں کہا کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافے کی ایک وجہ یہ ہے کہ موجودہ قوانین اس جرم کی مناسب روک تھام نہیں کر رہے۔’’ قوانین میں لڑکوں یا لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے خلاف سزا تو موجود ہے لیکن اس کے علاوہ ایسی بہت سی ایسی جسمانی سرگرمیاں ہیں جو بچوں کے جنسی استحصال کے زمرے میں آتی ہیں لیکن ان کے لیے کوئی سزا موجود نہیں جبکہ بچے بھی لا علمی کے باعث کسی سے اس کا ذکر نہیں کرتے‘‘۔
زہرہ کمال کی رائے میں اگر بچوں کے تحفظ کے لیے موثر قوانین وضع کر دیے جائیں تو وہ والدین جو اس وقت اپنے بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو چھپاتے ہیں خود مجرمان کے خلاف شکایات درج کرائیں گے اور یوں معاشرے سے اس جرم کا خاتمہ ہو سکے گا۔
روزن تنظیم سے تعلق رکھنے والی ماہر تفسیات ڈاکڑ انیتا اعجاز نے ایک انٹرویو میں کہا کہ بچوں کو جنسی استحصال سے بچانے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ والدین یا سرپرست بچوں کی مسلسل نگرانی کریں اور انہیں چھوٹی عمر سے ہی اپنے جسمانی تحفظ کے بارے میں آگاہی اور تربیت فراہم کریں۔
انٹرنیشنل اسلامک میڈیکل کالج کی ڈاکٹر اسما شبیر کا کہنا تھا کہ بچوں کے جنسی استحصال کی ایک بنیادی وجہ معاشرے میں پائی جانے والی مایوسی ہے۔
جنسی زیادتی کا شکار ان کے مطابق اگرچہ ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے بچے ہو رہے ہیں لیکن ان میں میں زیادہ تر جیلوں ، مدرسوں ، ہوسٹلوں اور مختلف جگہوں پر مزدوری کرنے والے بچے ہیں جبکہ اکثر امیر گھروں میں بھی بچوں کو ان کے رشتے داروں یا دوسرے افراد کی طرف سے زیادتی کا نشانہ بنانے کے واقعات سامنے آتےہیں۔