چین کے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ عالمی منظرنامے پر کوئی بھی تبدیلی اُن کے ملک اور پاکستان کے روابط کو متاثر نہیں کر ے گی کیوں کہ دونوں کے درمیان ”تمام موسموں میں قائم رہنے والی دوستی“ کا رشتہ ہے۔
بدھ کو بیجنگ کے ’گریٹ ہال آف دی پیپل‘ میں اپنے پاکستانی ہم منصب یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کے بعد وزیر اعظم وین جیا باؤ نے واضح کیا کہ ”پاکستان اور چین ہمیشہ اچھے ہمسائے، اچھے دوست، اچھے شراکت دار اور اچھے بھائی رہیں گے۔“
وین جیا باؤ کا کہنا تھا کہ پاکستانی وزیر اعظم کا دورہ چین دوطرفہ تعلقات کو تقویت بخشنے اور شراکت داری کو نئی بلندیوں پر پہنچانے میں مددگار ثابت ہوگا۔
چینی وزیر اعظم کے اس پاکستان دوست بیان کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی و ٹیکنالوجی تعاون، بینکاری اور کان کنی کے شعبوں سے متعلق معاہدوں پر دستخط کیے گئے جب کہ دفاعی شعبے میں تعاون کو وسعت دینے کے لیے بھی معاہدہ موقع ہے۔
پاکستان کے شمالی شہر ایبٹ آباد میں ایک خفیہ امریکی آپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے دو ہفتے بعد پاکستانی رہنما کے دورہ چین کو انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے کیوں کہ چین وہ واحد ملک ہے جس نے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی پالیسی کی تائید کی تھی۔
پاکستان کے سرکاری ٹی وی پر وزیراعظم گیلانی کی میڈیا سے گفتگو کے جو اقتباسات پیش کیے ہیں ان کے مطابق پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کا ازسرنو جائزہ لے گا۔ جب کہ چینی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اُن کا ملک پاکستان کی خودمختاری اور سا لمیت کے احترام پر یقین رکھتا ہے۔
پاکستان نے اس تاثر کی نفی کی ہے کہ چین کے ساتھ روابط بڑھا کر وہ امریکہ سے دور ہونا چاہتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بیجنگ میں پاکستان کے سفیر مسعود خان نے کہا ”ہم کسی قسم کے تصادم یا تناؤ کے لیے کام نہیں کرنا چاہتے میں ۔ امریکہ کے ساتھ بھی ہمارے برس ہا برس پر محیط تعلقات ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف ہمیں مجموعی کوششیں کرنی چاہیں اور اس سلسلے میں اقوام کے درمیان اتحاد میں کسی قسم کی دراڑ نہیں آنی چاہیئے کیوں کہ بن لادن تو مارا گیا لیکن دہشت گردی ابھی ختم نہیں ہوئی۔“
بن لادن کی ایک فوجی چھاؤنی سے متصل حساس علاقے میں کئی سالوں تک روپوشی اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان تناؤ کی وجہ بنی ہوئی ہے اور اعلیٰ امریکی عہدے دار پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور فوج پر القاعدہ کے رہنما کی پشت پناہی کرنے کا شبہ ظاہر کر رہے ہیں۔
رواں سال پاکستان اور چین کے دوطرفہ سفارتی تعلقات کے 60 برس مکمل ہو رہے ہیں اور ان چھ دہائیوں میں دونوں ملکوں کے درمیان مسلسل قریبی روابط کی وجوہات میں جنوبی ایشیا میں بھارت اور امریکہ کے اثرورسوخ میں اضافے سے متعلق خدشات ہیں۔
لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ دونوں ملک اس سلسلے میں ایک حد تک سخت موقف اپنا سکتے ہیں کیوں کہ بھارت چین کا ایک اہم اقتصادی حلیف ہے جب کہ پاکستان کی فوج اور معیشت کا خاصہ انحصار امریکہ سے ملنے والی اعانت پر ہے۔