ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کو موسمی تبدیلی سے سنگین ترین خطرات لاحق ہیں اور اگر میکسیکو میں اس موضوع پر جاری عالمی کانفرنس میں گرین ہاؤس گیس کے اخراج کو کم کرنے پر کوئی معاہدہ نہیں ہوتا تو خطے کو مستقبل میں سیلاب اور خشک سالی سمیت دوسری آفات کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں وزارت ماحولیات کے ذیلی ادارے گلوبل چینج امپیکٹ سٹڈی سینٹر کے سربراہ ارشد خان نے کہا کہ ترقی یافتہ ملکوں کا صنعتی دھواں فضا میں شامل ہونے سے عالمی حدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور صرف گذشتہ دس سالوں میں ہی درجہ حرارت اشاریہ دو فیصد تک بڑھ گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ترقی یافتہ ملکوں خاص طور پر امریکہ چین اور یورپی ممالک گرین ہاؤس گیس کے اخراج کا بڑا ذریعہ ہیں جو اسے کم کرنے کے لیے ان کے مطابق اس لیے تیار نہیں کہ اس ضمن میں بھاری سرمایہ درکار ہونے کے علاوہ ان ملکوں کو اپنی توانائی پیدا کرنے کے نظام میں بھی بڑی تبدیلیاں لانی ہوں گی ’’ان ممالک کو خدشہ ہے کہ ایسا کرنے سے ان کی اقتصادی ترقی متاثر ہو سکتی ہے‘‘۔
موسمی تبدیلی کے موضوع پر گذشتہ سال کوپن ہیگن میں ہونے والی کانفرنس میں گرین ہاؤس گیس کے اخراج کو کم کرنے پر کوئی اتفاق رائے نہیں ہو سکا تھا۔
ادارے کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عالمی حدت میں اضافے سے ترقی یافتہ ملکوں کے متاثر ہونے کا امکان نسبتاً کم ہے جو دراصل اس میں اضافے کی وجہ ہیں ’’بلکہ کئی ملکوں کے زرعی شعبے کو تو اس تبدیلی سے بہت فائدہ ہو گا‘‘۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سمیت وہ ترقی پذیر ملک جن کا گرین ہاؤس کے اخراج میں کردار نہ ہونے کا برابر ہے اس سے شدید طور پر متاثر ہو سکتے ہیں جس کی ایک مثال ملک میں حالیہ تباہ کن سیلاب ہیں۔ جبکہ گلیشیرجو پاکستان کے لیے پانی کا قدرتی ذخیرہ ہیں ان کا پگھلنا بھی موسمی تبدیلی ہی کا نتیجہ ہے۔
’’ہمالیہ کے پہاڑوں سے جو دریا نکلتے ہیں وہ دنیا کی ایک تہائی آبادی کو پانی فراہم کرتے ہیں جن میں پاکستان کے علاوہ بھارت ، چین ،نیپال اور بھوٹان شامل ہیں‘‘۔
دس دسمبر تک جاری رہنے والی کینکن کانفرنس اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہو رہی ہے جس میں تقریبا دو سو ملک شریک ہیں۔
کانفرنس میں پاکستانی وفد کی قیات وفاقی وزیر ماحولیات حمید اللہ جان آفریدی کر رہے ہیں۔