ایک تحقیقی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں تھر پارکر میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے نئے پلانٹس ملک میں فضائی آلودگی میں اضافہ کا باعث بنیں گے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پلانٹس سے نکلنے والی دھویں سے قریبی آبادیوں میں سانس کے امراض بڑھیں گے اور آئندہ سالوں میں بڑی تعداد میں ہلاکتوں کا اندیشہ بھی ہو سکتا ہے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان جس خطے میں واقع وہاں کوئلے سے آلودگی کے اثرات کم پائے جاتے ہیں۔
'سینٹر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ایئر' کی جانب سے جاری کردہ تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا شمار پہلے ہی فضائی آلودگی سے زیادہ متاثرہ ممالک میں ہوتا ہے جب کہ 2019 کی ایک رپورٹ میں نشان دہی ہوئی تھی کہ دنیا کے 15 آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں سے چار پاکستان کے شہر ہیں۔
یہ بھی نشاندہی کی گئی کہ 2017 میں ایک لاکھ 28 ہزار افراد پاکستان میں آلودگی کی وجہ سےہلاک ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں آلودگی کے بڑے ماخذ میں سے ٹرانسپورٹ میں جلنے والا ایندھن، کوئلے اور فرنس آئل سے چلنے والے بجلی گھر، کھانا بنانے یا گرم کرنے کے لیے جلائے جانے والا گوبر، زرعی فضلہ، تعمیرات سے پیدا ہونے والی آلودگی اور شہروں میں پایا جانے والا کچرا شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جنوری 2020 سے پاکستان کوئلے سے 5090 میگا واٹ بجلی پیدا کر رہا ہے۔ 95 فی صد پاور پلانٹس جو 4900 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، گزشتہ تین سال کے دوران تعمیر کیے گئے ہیں جب کہ اس طرح کے 6 ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس ابھی زیر تکمیل ہیں۔
زیر تکمیل پاور پلانٹس کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ان میں 300 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والا گوادر پاور پلانٹ، 218 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والے پنجاب میں دو پاور پلانٹس اور سندھ میں پانچ ہزار 690 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والے کوئلے سے چلنے والے آٹھ مختلف پاور اسٹیشنز شامل ہیں۔
رپورٹ میں اس بات پر حیرانگی کا اظہار کیا گیا ہے کہ یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دنیا بھر میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر اور ایسے منصوبے ختم کیے جا رہے ہیں کیونکہ اس سے عالمی حدت، فضائی آلودگی میں اضافہ اور معاشی طور پر نقصان ہو رہا ہے۔
'تھرپارکر میں 3700 میگا واٹ بجلی کی پیداوار کے لیے 9 پاور پلانٹس'
توانائی اور صاف ہوا پر تحقیق سے منسلک اس سینٹر کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر میں بڑے پیمانے پر کوئلے کی کانوں اور پاور پلانٹس لگانے کا منصوبہ زیر تکمیل ہے جس کے تحت علاقے میں 3 ہزار 700 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے نو پاور پلانٹس لگائے جا رہے ہیں۔ اس میں سے 660 میگاواٹ پیداوار شروع کر دی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجوزہ پاور پلانٹس جنوبی ایشیا میں فضا کو سب سے زیادہ آلودہ کرنے اور ماحول دشمن مرکری (بھاری بھرکم زہریلی دھات) اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کرنے والے مقامات میں سے ایک مقام بن جائے گا۔
رپورٹ تیار کرنے والے محقیقین کا دعویٰ ہے کہ تھرپارکر بلاک چھ میں کوئلے کے پاور اسٹیشن سے نکلنے والی آلودگی کو جان بوجھ کر کم ظاہر کیا جارہا ہے۔
تھرپارکر میں کوئلے کے پلانٹس کی فضائی آلودگی سے 29 ہزار افراد کی ہلاکت کا خدشہ: رپورٹ
رپورٹ تیار کرنے والے ماحولیات کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان پلانٹس اور کوئلے کی کانوں سے پیدا ہونے والی زہریلی گیسز سے ایک لاکھ کے قریب لوگوں کے متاثر ہونےکا خدشہ ہے۔ اسی طرح ان پلانٹس سے اگلے 30 سال میں 29 ہزار افراد کے فضائی آلودگی سے ہلاکت ہونے کا خدشہ ہے۔
تھرپارکر کے پاور پلانٹس سے خارج ہونے والی آلودگی کے حوالے سے مزید کہا گیا ہے کہ 40 ہزار افراد میں استھما ایمرجنسی، سانس کی بیماریوں میں 19 ہزار بچوں کے مبتلا ہونے اور 32 ہزار بچوں کی قبل از وقت پیدائش ہو سکتی ہے جب کہ 57 ہزار افراد ایسے ہوں گے جو سانس کے امراض، ذیابیطس اور دل کی بیماریوں کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے۔
تحقیق میں اس خدشے کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ تھرپارکر میں قائم کیے جانے والے یہ پلانٹس ایک سال میں پانچ ہزار ٹن بھاری دھاتوں والے ذرات اور 1400 کلو گرام مرکری کا اخراج کریں گے جس کا پانچواں حصہ یعنی 320 کلو سالانہ بنیاد پر اسی علاقے میں دفنایا جائے گا۔ زمین میں اس دھات کو دفنانے سے یہاں پیدا ہونے والی فصلوں میں مرکری کی شمولیت، یہاں کے رہائشیوں کے لیے صحت کے خطرے سے خالی نہیں ہوگا۔
رپورٹ میں پاور پلانٹس کے حوالے سے مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان میں کوئلے کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے لیے قائم کیے جانے والے پلانٹس فضائی آلودگی میں تیزی سے اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ ایسے میں توانائی کے حصول کے لیے نئے پاور پلانٹس کی تنصیب سے یہ مسئلہ شدت اختیار کرے گا اور اس کے ساتھ سانس کے امراض، وقت سے پہلے بچوں کی پیدائش، ذیابیطس میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔
تعمیر کے ابتدائی مراحل میں موجود پاور پلانٹس بند کرنے کی سفارش
رپورٹ کی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ کوئلے کے پلانٹس سے خارج ہونے والی مختلف زہریلی گیسز بالخصوص سلفر ڈائی آکسائیڈ، نائٹوروجن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گیسز کے اخراج کے عالمی معیارات پر سختی سے عمل درآمد کو ممکن بنایا جائے۔ یہ معیارات یورپی یونین، چین اور اب بھارت میں بھی لاگو ہو چکے ہیں جب کہ کوئلے کے پاور اسٹیشنز میں پانی کا استعمال کم سے کم کرنے کی کوشش کی جائے۔
یہ بھی سفارش کی گئی ہے کہ مستقبل میں ایسے پلانٹس کے قیام سے قبل اس سے پہنچنے والے نقصانات بالخصوص فضائی آلودگی کا احاطہ ضرور کیا جائے اور بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے توانائی کے متبادل قابل تجدید ذرائع استعمال کیے جائیں۔
رپورٹ کی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ یہ منصوبہ پاکستان کی فضائی آلودگی میں مزید اضافے کا باعث بنے گا۔ صحت عامہ اور معیشت کے لیے نقصان دہ ایسے منصوبے، جو ابھی تعمیر کے ابتدائی مراحل میں ہیں، انہیں ختم کیا جانا چاہیے جب کہ پہلے سے موجود پلانٹس کو ان کی صلاحیت کے مطابق زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے۔
پلانٹس ایسے علاقوں میں ہیں جہاں آلودگی کے اثرات کم ہوں گے: ماہرین
ایک جانب جہاں ماہرین ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں تو دوسری جانب کچھ ایسے بھی ماہرین ہیں جن کے مطابق پاکستان اس خطے میں واقع ہے جہاں بارشیں کم اور تیز ہوائیں سال کے نو ماہ تک چلتی ہیں۔ سندھ کا ضلع تھرپارکر اور پھر بلوچستان کی ساحلی پٹی ایسے علاقے ہیں جہاں کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس لگائے جا رہے ہیں اور ایسے علاقوں میں کوئلے سے پیدا شدہ آلودگی کے اثرات کم ہوں گے۔
'برٹش سوسائٹی آف ایکولوجسٹس' سے منسلک ماہر ماحولیات رفیع الحق کا کہنا ہے کہ کوئلے سے بجلی کے حصول کے لیے متوازن پالیسی کی ضرورت ہے جس کے تحت ترقی کا راستہ بھی کھلا رہے اور ماحولیاتی بقا کو بھی ممکن بنایا جا سکے۔
ان کے بقول جہاں آلودگی کی شرح زیادہ ہے وہاں کے باشندوں میں موذی امراض کی شرح زیادہ پائی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یقینا پاکستان دنیا کے ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے سرفہرست ممالک میں تو موجود ہے لیکن ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے ماحول میں موجود تنوع اس تبدیلی کو جذب کرنے کی صلاحیت اب تک رکھتی ہے۔
رفیع الحق کے مطابق گزشتہ چند سال میں ہماری ترجیحات ماحول سے زیادہ توانائی کا حصول رہا ہے لیکن اس بارے میں قومی ترجیحات میں بہرحال توازن برقرار رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں توانائی کے ذرائع کو وسیع بنیادوں پر استوار کرنے میں اب تک کامیابی نہیں مل سکی کیوں کہ ان کے خیال میں اس میں اصل رکاوٹ پیٹرولیم مصنوعات بنانے والی کمپنیوں کی لابنگ زیادہ حائل رہی ہے۔
وہ اس بات کی ضرورت پر زور دیتے ہیں کہ توانائی کے حصول کے لیے صاف اور ماحول دوست ذرائع پر انحصار زیادہ کیا جائے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان پوری دنیا کے پیدا شدہ کاربن کا محض 0.8 فی صد پیدا کر رہا ہے۔ اگر کوئلے سے بجلی کے حصول کے یہ پلانٹس بھی کام شروع کر دیں تو یہ 3 فی صد سے زائد نہیں ہوگا۔
پاکستان میں سندھ کے ریگستانی علاقے ضلع تھرپارکر میں کوئلے کی دریافت کو دنیا کے 20 بڑے ذخائر میں سے ایک کہا جا رہا ہے جس سے پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے ذریعے بجلی کی پیداوار کا آغاز کیا جا چکا ہے۔