پاکستان نے کشمیر میں ”لائن آف کنٹرول“ پر چینی فوجوں کی موجودگی سے متعلق بھارتی قیاس آرائیوں کی واضح الفاظ میں تردید کی ہے۔
چین ان اطلاعات کو بے بنیاد قرار دے کر پہلے ہی مسترد کر چکا ہے اور جمعرات کو اسلام آباد میں ہفتہ وار نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان تہمینہ جنجوعہ نے بھی ان الزامات کو ’’مضحکہ خیر‘‘ قرار دیا۔
اُن کے بقول ”بھارتی میڈیا کی یہ اطلاعات صریحاً غلط ہیں کیوں کہ لائن آف کنٹرول پر چینی فوجیوں کی موجودگی مضحکہ خیز اور ناممکن ہے۔“
گذشتہ کئی روز سے بھارتی ذرائع ابلاغ میں گردش کرنے والی خبروں میں الزام لگایا جا رہا ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ہزاروں چینی فوجی موجود ہیں اور ان اطلاعات پر تبصرہ کرتے ہوئے بھارت کے سیاسی و فوجی حکام نے کہا ہے کہ یہ صورت حال اُن کے لیے باعث تشویش ہے جس پر وہ کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔
وزارت خارجہ کی ترجمان نے پاکستان کے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ پاک چین روابط سے کسی ملک کو خطرہ محسوس کرنے کی ضروت نہیں کیوں کہ ان باہمی تعلقات کا بنیادی مقصد ہی خطے میں امن و استحکام کا قیام ہے۔
کشمیر کا تنازعہ پاکستان اور بھارت کے درمیان شروع دن سے کشیدگی کی بنیادی وجہ ہے اور اس تنازعے کو حل کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان شروع کیے گئے جامع امن مذاکرات کا عمل نومبر 2008ء کے ممبئی حملوں کے بعد معطل ہونے سے دوطرفہ کشیدگی میں اضافہ ہو گیا تھا۔
تاہم دو سال سے زائد عرصے تک تعطل کا شکار رہنے کے بعد یہ امن کے قیام کے لیے یہ عمل گذشتہ ماہ سے بحال ہو چکا ہے۔ مارچ کے اواخر میں پاک بھارت داخلہ سیکرٹریوں کی نئی دہلی میں ملاقات کے علاوہ دونوں ملکوں کے وزراء اعظم بھی کرکٹ کے عالمی کپ کے سیمی فائنل میچ کے موقع پر بھارتی شہر موہالی میں ملاقات کر چکے ہیں۔
بات چیت کے اس سلسلے میں سیکرٹری تجارت کی سطح پر اجلاس رواں ماہ کے اواخر میں اسلام آباد میں ہو گا جس میں دوطرفہ تجارتی روابط کو وہیں سے شروع کرنے پر مذاکرات کیے جائیں گے جہاں سے یہ سلسلہ ممبئی حملوں کے بعد منقطع ہوا تھا۔
امن مذاکرات کے لیے ماحول کو ساز گار بنانے کے لیے دونوں ملک نے اپنی جیلوں میں قید ایک دوسرے باشندوں کو رہا کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور جمعرات کو کراچی کی ملیر جیل سے لگ بھگ نوے مزید بھارتی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔