اسلام آباد —
پاکستان نے کشمیر میں حد بندی لائن پر موجودہ صورتِ حال پر ’’ضبط اور ذمہ دارای‘‘ کا مظاہرہ کرنے کا اعادہ کرتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ بھارت بھی کشیدگی میں کمی سے متعلق اقدامات کرے گا۔
کشمیر کو دو حصوں میں منقسم کرنے والی ’لائن آف کنٹرول‘ پر کشیدگی کا آغاز گزشتہ ہفتے پانچ بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد ہوا جس کا الزام براہ راست پاکستانی فوج پر عائد کیا گیا۔
حالیہ دنوں میں بھارتی اور پاکستانی فوجیوں کے درمیان متعدد مرتبہ فائرنگ اور گولہ باری کا تبادلہ ہو چکا ہے، اور دونوں ممالک نے ایک دوسرے کو ’’بلاِ اشتعال کارروائی‘‘ کا مورد الزام ٹھہرایا ہے۔
پاکستانی عسکری حکام کے مطابق بٹل سیکٹر میں منگل کی شب بھارتی گولہ باری سے ایک شہری ہلاک ہو گیا، جس کے بعد حالیہ دنوں میں سرحد پار سے کی گئی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد دو ہو گئی ہے۔
وزیرِ اعظم نواز شریف نے بدھ کو اقوامِ متحدہ کے سربراہ بان کی مون سے ملاقات کے بعد مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لائن آف کنٹرول پر پائی جانے والی کشیدگی دونوں رہنماؤں کے لیے باعث تشویش ہے۔
’’ہمیں کشیدگی میں کمی اور صورتِ حال میں بہتری لانا ہوگی۔‘‘
وزیرِ اعظم نے کہا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین ’’مزید سفارت کاری‘‘ کی ضرورت ہے۔
نواز شریف نے پاکستان کا اصولی موقف دہراتے ہوئے کہا کہ اُن کا ملک اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کا پُر امن حل چاہتا ہے۔
’’ہمیں اُمید ہے کہ تنازع کشمیر کے حل میں اقوام متحدہ اپنا کردار ادا کرے گی۔‘‘
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اپنے خطاب میں مسئلہ کشمیر اور لائن آف کنٹرول پر جاری کشیدگی پر براہ راست کوئی تبصرہ نہیں کیا، تاہم اُنھوں نے قیام امن کے لیے پاکستان کی کوششوں کی تعریف کی۔
’’اندرونِ ملک سنگین چیلنجوں سے نمٹنے اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کی مضبوطی کے لیے (پاکستان کے) تمام اقدامات کا میں تہہ دل سے خیر مقدم کرتا ہوں۔‘‘
بان کی مون نے بتایا کہ وزیرِ اعظم نواز شریف کے ساتھ بات چیت میں افغانستان میں ذمہ داریوں کی منتقلی کا عمل اور اقوام متحدہ کے کردار جیسے معاملات بھی زیرِ بحث آئے۔
اس سے قبل نواز شریف نے کہا کہ پاکستان ایک پُر امن اور مستحکم افغانستان کے لیے کام کرتا رہے گا، جب کہ افغانوں کی سرپرستی میں ہونے والے امن عمل میں بھی ہر ممکن معاونت جاری رہے گی۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات میں عوام کی بہتری و ترقی سے متعلق اُمور پر بھی گفتگو کی گئی، جب کہ پاکستان اور اقوام متحدہ کے درمیان شراکت داری کو مزید مضبوط کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
اقوام ِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل اپنی اہلیہ کے ہمراہ دو روزہ دورے پر منگل کو پاکستان پہنچے تھے، جہاں اُنھوں نے سیاسی قائدین سے ملاقاتوں کے علاوہ مقامی یونیورسٹی میں مرکز برائے بین الاقوامی امن و استحکام کا افتتاح بھی کیا۔
اُن کے دورہِ پاکستان کی مصروفیات میں آفات سے نمٹنے کے ادارے ’نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی‘ کے عہدے داروں کے علاوہ خواتین کی ترقی اور فروغ تعلیم کی کوششوں سے منسلک شخصیات سے ملاقاتیں بھی شامل تھیں۔
کشمیر کو دو حصوں میں منقسم کرنے والی ’لائن آف کنٹرول‘ پر کشیدگی کا آغاز گزشتہ ہفتے پانچ بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد ہوا جس کا الزام براہ راست پاکستانی فوج پر عائد کیا گیا۔
حالیہ دنوں میں بھارتی اور پاکستانی فوجیوں کے درمیان متعدد مرتبہ فائرنگ اور گولہ باری کا تبادلہ ہو چکا ہے، اور دونوں ممالک نے ایک دوسرے کو ’’بلاِ اشتعال کارروائی‘‘ کا مورد الزام ٹھہرایا ہے۔
پاکستانی عسکری حکام کے مطابق بٹل سیکٹر میں منگل کی شب بھارتی گولہ باری سے ایک شہری ہلاک ہو گیا، جس کے بعد حالیہ دنوں میں سرحد پار سے کی گئی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد دو ہو گئی ہے۔
وزیرِ اعظم نواز شریف نے بدھ کو اقوامِ متحدہ کے سربراہ بان کی مون سے ملاقات کے بعد مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لائن آف کنٹرول پر پائی جانے والی کشیدگی دونوں رہنماؤں کے لیے باعث تشویش ہے۔
’’ہمیں کشیدگی میں کمی اور صورتِ حال میں بہتری لانا ہوگی۔‘‘
وزیرِ اعظم نے کہا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین ’’مزید سفارت کاری‘‘ کی ضرورت ہے۔
نواز شریف نے پاکستان کا اصولی موقف دہراتے ہوئے کہا کہ اُن کا ملک اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کا پُر امن حل چاہتا ہے۔
’’ہمیں اُمید ہے کہ تنازع کشمیر کے حل میں اقوام متحدہ اپنا کردار ادا کرے گی۔‘‘
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اپنے خطاب میں مسئلہ کشمیر اور لائن آف کنٹرول پر جاری کشیدگی پر براہ راست کوئی تبصرہ نہیں کیا، تاہم اُنھوں نے قیام امن کے لیے پاکستان کی کوششوں کی تعریف کی۔
’’اندرونِ ملک سنگین چیلنجوں سے نمٹنے اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کی مضبوطی کے لیے (پاکستان کے) تمام اقدامات کا میں تہہ دل سے خیر مقدم کرتا ہوں۔‘‘
بان کی مون نے بتایا کہ وزیرِ اعظم نواز شریف کے ساتھ بات چیت میں افغانستان میں ذمہ داریوں کی منتقلی کا عمل اور اقوام متحدہ کے کردار جیسے معاملات بھی زیرِ بحث آئے۔
اس سے قبل نواز شریف نے کہا کہ پاکستان ایک پُر امن اور مستحکم افغانستان کے لیے کام کرتا رہے گا، جب کہ افغانوں کی سرپرستی میں ہونے والے امن عمل میں بھی ہر ممکن معاونت جاری رہے گی۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات میں عوام کی بہتری و ترقی سے متعلق اُمور پر بھی گفتگو کی گئی، جب کہ پاکستان اور اقوام متحدہ کے درمیان شراکت داری کو مزید مضبوط کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
اقوام ِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل اپنی اہلیہ کے ہمراہ دو روزہ دورے پر منگل کو پاکستان پہنچے تھے، جہاں اُنھوں نے سیاسی قائدین سے ملاقاتوں کے علاوہ مقامی یونیورسٹی میں مرکز برائے بین الاقوامی امن و استحکام کا افتتاح بھی کیا۔
اُن کے دورہِ پاکستان کی مصروفیات میں آفات سے نمٹنے کے ادارے ’نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی‘ کے عہدے داروں کے علاوہ خواتین کی ترقی اور فروغ تعلیم کی کوششوں سے منسلک شخصیات سے ملاقاتیں بھی شامل تھیں۔