اسلام آباد —
وزیراعظم نواز شریف نے دونوں ملکوں کے عوام کی بہتری کے لیے پاکستان اور بھارت کو اپنے دو طرفہ تعلقات میں بہتری لانے پر زور دیا ہے۔
پاکستانی وزیراعظم کا یہ بیان ایک نجی ٹی وی چینل پر نشر ہوا جس میں انھوں نے بھارت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ تمام تصفیہ طلب معاملات کے پرامن حل کے لیے پاکستان کے ساتھ مل بیٹھ کر نئے تعلقات کا آغاز کرے۔
وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے یہ پیغام ایک ایسے وقت میں آیا جب حال ہی میں متنازع ریاست کشمیر میں حد بندی لائن پر فائر بندی کی مبینہ خلاف ورزی پر دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات میں تناؤ پیدا ہوگیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں وزیر مملکت برائے مذہبی اُمور امین الحسنات نے وزیراعظم کے امن کے پیغام کا مقصد بتاتے ہوئے کہا کہ ’’دوست تو بدلے جا سکتے ہیں مگر ہمسائے نہیں۔ وہ جیسے بھی ہیں گزارا کرنا پڑتا ہے۔ ہماری قیادت بالغ نظر ہے اور کبھی بھی محض عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کوئی فیصلہ نہیں کرتی۔ بات چیت ہر صورتحال میں ہوسکتی ہے چاہے جنگ بھی چھڑی ہے۔‘‘
حزب اختلاف کی جماعتیں بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ کشیدگی پر امن طریقے سے ختم کرنے کی حمایت کرتی ہیں۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کہتے ہیں۔
’’ہم امن سے رہنا چاہتے ہیں اور امن کی بھاشہ پر بہت زیادہ سرمایہ کاری ہو چکی ہے اسے جنگ میں تبدیل نا کیا جائے۔ ورنہ زیادہ نقصان بھارت کا ہو گا کیونکہ ہم تو پہلے ہی اندرونی انتشار، دہشت گردی اور شدت پسندی کا شکار ہیں۔‘‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما مخدوم امین فہیم کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ کسی معاملے کا حل نہیں بلکہ اس سے حالات مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔ تاہم موجودہ حکومت کی جانب سے بھارت کو تجارت سے متعلق پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کے فیصلے میں اعلان کردہ تاخیر پر وہ بظاہر خوش نہیں۔
’’عجیب باتیں کرتے ہیں۔ ہماری حکومت میں کابینہ نے دو مرتبہ اس کی منظوری دی تھی مگر اب حکومت کہتی ہے کہ ایم ایف این نہیں دیا جائے گا۔ کیا ان کی کابینہ آسمان سے آئی ہے اور اس معاملے میں فیصلہ کرے گی۔‘‘
تاہم وزیر مملکت عابد شیر علی کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ ان کی حکومت کا بھارت سے بہتر تعلقات رکھنے کی پالیسی سے متصادم نہیں۔
’’کچھ ہماری سیکورٹی وجوہات بھی ہیں، کچھ ہمارے قومی مفادات بھی ہیں۔ ملکی مفادات کو ہم کسی چیز پر ہم قربان نہیں کر سکتے۔ پہلے پاکستان اور پھر یہ ثانوی چیزیں آتی ہیں۔‘‘
وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے پیر کی شب ایک مقامی ٹی وی چینل کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ حکومت بھارت کو فوری طور پر تجارت کے لیے پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کا ارادہ نہیں رکھتی۔
پاکستانی وزیراعظم کا یہ بیان ایک نجی ٹی وی چینل پر نشر ہوا جس میں انھوں نے بھارت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ تمام تصفیہ طلب معاملات کے پرامن حل کے لیے پاکستان کے ساتھ مل بیٹھ کر نئے تعلقات کا آغاز کرے۔
وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے یہ پیغام ایک ایسے وقت میں آیا جب حال ہی میں متنازع ریاست کشمیر میں حد بندی لائن پر فائر بندی کی مبینہ خلاف ورزی پر دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات میں تناؤ پیدا ہوگیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں وزیر مملکت برائے مذہبی اُمور امین الحسنات نے وزیراعظم کے امن کے پیغام کا مقصد بتاتے ہوئے کہا کہ ’’دوست تو بدلے جا سکتے ہیں مگر ہمسائے نہیں۔ وہ جیسے بھی ہیں گزارا کرنا پڑتا ہے۔ ہماری قیادت بالغ نظر ہے اور کبھی بھی محض عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کوئی فیصلہ نہیں کرتی۔ بات چیت ہر صورتحال میں ہوسکتی ہے چاہے جنگ بھی چھڑی ہے۔‘‘
حزب اختلاف کی جماعتیں بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ کشیدگی پر امن طریقے سے ختم کرنے کی حمایت کرتی ہیں۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کہتے ہیں۔
’’ہم امن سے رہنا چاہتے ہیں اور امن کی بھاشہ پر بہت زیادہ سرمایہ کاری ہو چکی ہے اسے جنگ میں تبدیل نا کیا جائے۔ ورنہ زیادہ نقصان بھارت کا ہو گا کیونکہ ہم تو پہلے ہی اندرونی انتشار، دہشت گردی اور شدت پسندی کا شکار ہیں۔‘‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما مخدوم امین فہیم کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ کسی معاملے کا حل نہیں بلکہ اس سے حالات مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔ تاہم موجودہ حکومت کی جانب سے بھارت کو تجارت سے متعلق پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کے فیصلے میں اعلان کردہ تاخیر پر وہ بظاہر خوش نہیں۔
’’عجیب باتیں کرتے ہیں۔ ہماری حکومت میں کابینہ نے دو مرتبہ اس کی منظوری دی تھی مگر اب حکومت کہتی ہے کہ ایم ایف این نہیں دیا جائے گا۔ کیا ان کی کابینہ آسمان سے آئی ہے اور اس معاملے میں فیصلہ کرے گی۔‘‘
تاہم وزیر مملکت عابد شیر علی کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ ان کی حکومت کا بھارت سے بہتر تعلقات رکھنے کی پالیسی سے متصادم نہیں۔
’’کچھ ہماری سیکورٹی وجوہات بھی ہیں، کچھ ہمارے قومی مفادات بھی ہیں۔ ملکی مفادات کو ہم کسی چیز پر ہم قربان نہیں کر سکتے۔ پہلے پاکستان اور پھر یہ ثانوی چیزیں آتی ہیں۔‘‘
وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے پیر کی شب ایک مقامی ٹی وی چینل کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ حکومت بھارت کو فوری طور پر تجارت کے لیے پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کا ارادہ نہیں رکھتی۔