ڈیرہ غازی خان سے گرفتار خود کش حملہ آورعمر نے انکشاف کیا ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں خود کش حملہ آوروں کا ماسٹر مائنڈ کمانڈر سنگین ہے جس کے ساتھی جنت کا لالچ دے کر بچوں کو خود کش حملوں پر آمادہ کرتے ہیں ۔دوسری جانب علمائے کرام کا کہنا ہے کہ خود کش حملے حرام ہیں اور معاشی بدحالی اس کی بنیادی وجہ ہے ۔
چار اپریل کو ڈیرہ غازی خان میں سخی سرور کے مزار پر خود کش حملے میں ناکامی پر زخمی حالت میں گرفتار ہونے والے حملہ آور عمر نے میڈیا کو بتایا کہ وہ میران شاہ عیسیٰ خیل کا رہائشی ہے اور نویں جماعت کا طالب علم تھا کہ ایک روز قاری ظفر نامی شخص نے چھٹی کے بعد اسکول کے باہر اسے روکا اور کہا کہ یہ دنیاوی تعلیم تمہارے کسی کام کی نہیں ، تمہاری منزل جنت ہونی چاہیے اور اس کے حصول کیلئے تمہیں ہمارا ساتھ دینا چاہیے ۔
عمر نے قاری ظفر کوکوئی جواب نہ دیا اور اپنے گھر چلا گیا ۔ اگلے دن قاری ظفر پھر اسے ملا اور اسے اپنے ساتھ جانے پر آمادہ کر لیا ۔ پانچ سے چھ ماہ تک اسے قبائلی علاقے میر علی میں تربیت فراہم کی گئی ، اس کے ہمراہ تقریباً دو سو مزید بچوں نے بھی تربیت حاصل کی۔
عمر کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں تربیت گاہوں کی نگرانی کمانڈر سنگین کرتا ہے ، پھر ایک دن عمر کو کمانڈر سنگین سے ملوایا گیا جس نے اسے بتایا کہ تمہیں افغانستان میں خود کش حملہ کرنا ہے لیکن پھر اچانک اسے دو ساتھیوں نعیم اللہ اور اسماعیل کے ہمراہ ڈیرہ غازی خان پہنچا دیا گیا ۔
عمر جب ڈیرہ غازی خان میں واقع سخی سرور کے دربار پہنچا تو اس نے اپنے ساتھی نعیم اللہ سے استفسار کیا کہ یہ تو پاکستان ہے ، افغانستان نہیں جس پر نعیم اللہ نے کہا کہ یہ تو افغانستان کے کفار سے بھی بڑے کافر ہیں جو مردہ لوگوں کو پوجتے ہیں اور ان سے مدد مانگتے ہیں ۔ اس کے بعد نعیم اور اسماعیل نے خود کو دھماکا خیز مواد سے اڑا دیا جبکہ عمر نے جیسے ہی ایسا کرنا چاہا تو وہاں موجود سیکورٹی اہلکاروں نے اس کو پکڑ کر گرفتار کر لیا تاہم اس دوران اس کا ایک بازو کہنی سے آگے تک ضائع ہوگیا جبکہ دوسرا ہاتھ بھی شدید زخمی ہے جس کے بارے میں ڈاکٹرز نے تاحال حتمی رائے نہیں دی ۔
ناکام خود کش حملہ آور نے بتایا کہ اس کا والد وفات پا چکا ہے اور اس کی دو بہنیں زینب اور سحر ہیں جو اس سے چھوٹی ہیں ۔ عمر کا کہنا ہے کہ وہ جان چکا ہے کہ مسلمانوں پر خود کش حملہ جائز نہیں اور وہ تمام فدائین سے درخواست کرتا ہے کہ وہ طالبان کی باتوں میں نہ آئیں ،حرام کی موت نہ مریں ، اسے ڈیرہ اسماعیل خان مزار حملے میں جاں بحق ہونے والوں کی شہادت کا بے حد افسوس ہے اور وہ معافی کا طالبگار ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ہماری حفاظت کیلئے ہیں اور ہمیں ان پر فخر ہونا چاہیے ۔
دوسری جانب جامعہ بنوریہ کراچی کے مہتمم مفتی نعیم اور دیگر علمائے کرام کا کہنا ہے کہ خودکش حملہ ناجائز اور حرام ہے۔ خودکش حملے کی وجوہات کو ختم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ تعلیم کی کمی ، والدین کی نامناسب تربیت اور معاشی بد حالی خودکش حملوں کی بہت بڑی وجوہات ہیں ۔