پاکستان کی مخلوط حکومت میں شامل ایک اہم جماعت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے کہا ہے کہ پاکستانی فوج طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف موثر کارروائیاں کر رہی ہے لیکن سرحد کی دوسری جانب افغان اور نیٹو افواج کی طرف سے مبینہ غیر موثر حکمت عملی ان جنگجوؤں کی نقل و حرکت کو روکنے میں ناکام ہے۔
ملک کے شورش زدہ صوبے خیبر پختون خواہ میں حکمران اے این پی کے سینیٹر حاجی عدیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے ملک کو اس وقت ایک گوریلہ جنگ کا سامنا ہے اور دنیا میں جہاں کہیں بھی ایسی جنگ لڑی جارہی ہو وہاں کم وبیش وہی حالات ہیں جن سے اس وقت پاکستان گزر رہا ہے۔
امریکی کانگریس کو بھیجے گئے اپنے ایک تازہ جائزے میں صدر براک اوباما کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ طالبان عسکریت پسندوں کو شکست دینے کے لیے پاکستان کے پاس کوئی مضبوط حکمت عملی نہیں ہے اور القاعدہ سے منسلک اِن جنگجوؤں سے خالی کرائے گئے علاقوں پرکنٹرول برقرار رکھنے کی کوشش میں ملک کی افواج کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑھ رہی ہے۔
سینیٹر حاجی عدیل نے کہا کہ فوج کی پیش قدمی کے بعد عسکریت پسند بھاگ جاتے ہیں یا پھر عارضی طور پر بکھر جاتے ہیں کیوں کہ فوج ہر وقت ہر جگہ موجود نہیں رہتی اور اس کا فائدہ اٹھا کر جنگجو واپس آجاتے ہیں۔ لیکن سینیٹر حاجی عدیل نے اس الزام کو رد کیا کہ پاکستان میں عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی کا فقدان ہے۔ ا س کے برعکس اُنھوں نے الزام لگایا کہ سرحد کی دوسری جانب افغانستان میں مقامی اور نٹیو افواج کی اپنی حکمت عملی کو موثر بنانے کی ضرورت ہے۔
”نیٹو فورسز ہوں یا افغان فورسز ہوں جب تک وہ اپنی جانب سرحد پر کنٹرول کو موثر نہیں بناتیں، وہاں سے طالبان کی آمد ورفت جاری رہے گی۔ سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے جتنی قربانی اور جنتی کاوش پاکستانی افواج کر رہی ہیں اُتنی کوششیں افغانستان کی جانب سے نہیں ہو رہی ہیں۔ یہ سرحد اُن کے لیے بالکل کھلی ہوئی ہے ۔ وہاں کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور یہ جو دہشت گردہیں یا جنگجو ہیں بڑی آسانی سے سرحد عبور کر لیتے ہیں۔“
امریکی گانگریس کو پیش کی گئی رپورٹ میں وائٹ ہاؤس نے اس خدشے کو اجاگر کیا ہے کہ پاکستانی فوج نے بعض علاقوں میں شدت پسندوں کا صفایہ کر دیا ہے لیکن اس کے باوجود وہاں طالبان کی کارروائیاں جاری ہیں۔
باجوڑ اور مہمند ایجنسی کا حوالے دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پچھلے دو سالوں میں فوج کو تیسری مرتبہ عسکریت پسندوں کے خاتمے کے لیے بڑے آپریشن کرنے پڑے ہیں جس سے واضح طور پر اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ پاکستانی فوج اور حکومت خا لی کرائے گئے علاقوں میں جنگجوؤں کی واپسی کو روکنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔
پاکستانی فوجی اور سیاسی قیادت ماضی میں بھی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں پر بیرونی تنقید کو یہ کہہ کر مسترد کرتی آئی ہے کہ اس دس پرانی جنگ میں اُس کی قربانیاں نیٹواور امریکی افواج کی مجموعی قربانیوں سے کہیں زیادہ ہیں جو پاکستان کے عزم کا کھلا ثبوت ہے۔ پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا حصہ بننے کے بعد ملک کی معیشت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے اور اقتصادی صورت حال ابھی تک سخت مشکلات سے دوچار ہے۔
ایک غیر سرکاری تنظیم ’Individualland‘ نے حال ہی میں پاکستان میں پچھلے دس سالوں میں انسداد دہشت گردی کی مہم کا جائزہ پیش کیا ہے جس کے مطابق سن دوہزار تین سے آج تک شدت پسندوں کے خلاف لڑائی میں پاکستان میں مجموعی طور پر ساڑھے بتیس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں نو ہزار چار سو دس عام شہری اور تین ہزار تین سو چھبیس سکیورٹی اہلکار شامل ہیں۔ جب کہ ہلاک ہونے والے باقی افراد یعنی انیس ہزار نو سو انیس دہشت گرد اور عسکریت پسند تھے۔