امریکی کانگریس کو بھیجے گئے اپنے ایک تازہ جائزے میں صدر براک اوباما کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ طالبان عسکریت پسندوں کو شکست دینے کے لیے پاکستان کے پاس کوئی مضبوط حکمت عملی نہیں ہے اور القاعدہ سے منسلک اِن جنگجوؤں سے خالی کرائے گئے علاقوں پرکنٹرول برقرار رکھنے کی کوشش میں ملک کی افواج کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑھ رہی ہے۔
امریکی انتظامیہ کی رپورٹ کے مطابق”ایک لاکھ سنتالیس ہزار(147,000)سے زائد افواج کی بے مثال اور مسلسل تعیناتی کے باوجود پاکستان میں باغیوں کو شکست دینے کے لیے تاحال کوئی واضح راستہ نہیں اپنایا گیا ہے۔“
امریکہ طویل عرصے سے پاکستان پر زور دے رہا ہے کہ وہ سرحدی علاقوں میں محفوظ پناہ گاہوں سے افغانستان میں امریکی افواج پر حملے کرنے والے طالبان جنگجوؤں کے خاتمے کے لیے موثر فوجی کارروائیاں کرے۔
کانگریس کو پیش کی گئی رپورٹ میں وائٹ ہاؤس نے اس خدشے کو اجاگر کیا ہے کہ اگرچہ بعض علاقوں کو شدت پسندوں سے صاف کیا جا چکا ہے لیکن اس کے باوجود وہاں طالبان جنگجوؤں کی کارروائیاں جاری ہیں۔
پاکستانی فوج نے خاص طور پر افغان سرحد کے قریب قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے انسداد کے لیے بڑے آپریشن کیے ہیں لیکن طالبان کے نیٹ ورک کو توڑنے میں بظاہر یہ کوششیں کارگر ثابت نہیں ہو سکی ہیں جس کی مثال گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے خودکش بم دھماکے ہیں جن میں درجنوں افراد ہلاک اور بیسیوں زخمی ہو چکے ہیں۔
افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں باجوڑ اور مہمند ایجنسی میں سلامتی کی خراب صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ”پچھلے دو سالوں میں فوج کو تیسری مرتبہ عسکریت پسندوں کے صفائے کے لیے بڑے آپریشن کرنے پڑے ہیں جس سے واضح طور پر اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ پاکستانی فوج اور حکومت خا لی کرائے گئے علاقوں میں جنگجوؤں کی واپسی کو روکنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔“
انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں ہیلی کاپٹر ایک موثر ہتھیار ہوتے ہیں لیکن امریکی انتظامیہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی فوج کے ہیلی کاپٹروں کے بیڑے کی آپریشن کے لیے” ہنگامی صورت حال میں تیار رہنے کی صلاحیت میں کمی“ ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ پاکستان کی طرف سے امریکی ماہرین کو فوجی ہیلی کاپٹروں کی کارکردگی بہتر کرنے کی پیشکش قبول کرنے میں ہچکچاہٹ نے صورت حال کو مزید سنگین کیا ہے۔
تاہم رپورٹ میں اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے کہ دو پاکستانیوں کو قتل کرنے کے جرم میں امریکی سی آئی سے نجی حیثیت میں منسلک اہلکار ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کے معاملے نے پاکستان اور امریکی فوج کے درمیان تعاون کو متاثر نہیں کیا ہے۔
”امریکی عہدے دار ریمنڈ ڈیوس کی حراست کی وجہ سے دو طرفہ تعلقات میں تناؤ کے باوجود دو طرفہ فوجی تعاون مثبت سمت میں جاری ہے۔“