رسائی کے لنکس

کرونا وائرس: انسانی حقوق کی تنظیموں کا پاکستان میں قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

انسانی حقوق کی تنظیموں نے پاکستان میں کرونا وائرس کی وبا کی دوسری لہر کے دوران اس وبا کے پاکستان کی جیلوں میں پھیلاؤ کےخطرے کے پیش نظر حکومت سے پاکستان کی مختلف جیلوں میں بعض قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ مطالبہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب حال ہی میں جاری ہونے والے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی مختلف جیلوں میں گنجائش سے زائد قیدی موجود ہیں۔

پاکستان میں طبی ماہرین کی جانب سے کرونا وائرس کی دوسری لہر کو خطرناک قرار دیا گیا ہے اور اس کی وجہ سے پاکستان کی جیلوں میں موجود قیدیوں میں اس وبا کی پھیلاؤ کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جاسکتا ہے جہاں سماجی فاصلہ اور مناسب احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ایک چیلنج ہے۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمسنٹی انٹرنیشنل اور جسٹس پروجیکٹ پاکستان نے پیر کو جاری ہونے والے اپنی ایک مشترکہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان میں رواں سال کے اوائل میں کرونا وائرس کی وبا پھوٹنے کے بعد پاکستان کی جیلوں میں گنجائش سے زائد قیدیوں کی تعداد کو کم کرنے کے ضرورت کے باوجود پاکستان کی جیلوں میں اس دوران قیدیوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق رواں برس اپریل میں جب پاکستان میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد بڑھنا شروع ہوئی۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد 73 ہزار کے قریب تھی لیکن پاکستان کے وفاقی محتسب کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق یہ تعداد تقریبا 80 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشل اور جسٹس پروجیکٹ پاکستان نے حکومت پاکستان سے کرونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کے خطرے کے پیش نظر پاکستان کی مختلف جیلوں میں قید بعض قیدیوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

انسانی حقوق کے گروپوں نے پیر کو جاری اپنی رپورٹ میں پاکستان کی جیلوں میں قیدیوں تعداد کو کم کرنے کے لیے ضمیر کے تمام قیدیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

ان تمام قیدیوں کو بھی رہا کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جن کے مقدمات کی سماعت ابھی شروع ہونا باقی ہے اور ان کے مقدمات کے بارے میں ایسے عوامل موجود نہیں ہیں جو ان کی رہائی میں مانع ہیں۔ اس کے علاوہ ان خواتین اور عمر رسیدہ قیدیوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے جنہیں صحت کے مسائل کا سامنا ہے یا ایسے قیدی جنہوں نے اپنی قید کا بڑا حصہ بھگت لیا ہے۔

پاکستانی جیلوں میں خواتین اور ان کے چھوٹے بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔
پاکستانی جیلوں میں خواتین اور ان کے چھوٹے بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔

جنوبی ایشیا کے لیے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی نمائندہ رمل محی الدین نے پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پاکستان کی مختلف جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی موجود ہیں۔ رمل کے بقول کرونا کی دوسری لہر کے وقت یہ صورت حال نہایت تشویش ناک ہے اور اس وجہ سے قیدیوں کے اس بیماری کا شکار ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔

ان کے بقول یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کے لیے سماجی فاصلہ رکھنا اور دیگر احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے لیکن پاکستان کی جیلوں میں جہاں گنجائش سے زیادہ قیدی موجود ہیں ایسے احتیاطی اقدامات اٹھانا ایک مشکل امر ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب تک جیلوں میں قیدیوں کی تعداد کو کم نہیں کیا جاتا ہے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ موجود رہے گا۔

رمل محی الدین نے کہا کہ پاکستانی حکام بھی ملک کی جیلوں میں کرونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کے خطرے سے آگاہ ہیں لیکن ان کے بقول اس کے باوجود صورت حال سے نمٹنے کے لیے ابھی تک عملی اقدمات ہونا باقی ہیں۔

یاد رہے کہ رواں سال فروری میں کرونا وائرس کی وبا پھوٹنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے غیر سنگین جرائم کے الزام کے تحت قید یا ان قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا تھا جن کے مقدمات کی سماعت ابھی ہونا باقی ہیں یا قبل ازیں ان کی ضمانت کی درخواستیں مسترد ہو چکی تھیں لیکن بعد ازاں پاکستان کی سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے صرف محدود تعداد میں عمر رسیدہ، خواتین یا ایسے قیدیوں کو رہا کرنے حکم دیا تھا جنہیں صحت کے مسائل درپیش ہیں یا انہوں نے اپنی قید کا زیادہ حصہ بھگت لیا تھا۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کی مطالبے پر پاکستانی حکام نے تاحال کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا ہے لیکن پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کی عدالت عظمیٰ کے حکم کے مطابق ملک کی جیلوں میں زیر سماعت مقدمات میں قید یا تین سال سے کم سزا یافتہ ان خواتین قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا ہے جن کی عمر 55 سال زیادہ ہے یا وہ کسی جسمانی یا ذہنی عارضے میں متبلا ہیں کو رہا کرنے کا حکم دیا۔

جسٹس پروجیکٹ پاکستان سے منسلک بیرسٹر سیدہ جگنو محسن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے پیش نظر جیلوں میں بند قیدیوں کی تعداد کو کم کرنا ضروری ہے تاکہ اس بیماری کے پھیلاوں کو روکا جا سکے۔

ان کے بقول اگرچہ پاکستان کے وزیراعظم بھی بعض خواتین قیدیوں کی رہائی کا حکم دے چکے ہیں لہٰذا یہ ایک مناسب وقت ہے کہ اس اعلان پر جلد ازجلد عمل کیا جائے اس سے قبل کہ حالات زیادہ خراب ہو جائیں۔

یاد رہے کہ پاکستان میں قیدیوں کی حالت زار کے بارے میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک کی 116 جیلوں میں لگ بھگ 64 ہزار قیدی رکھنے کی گنجائش موجود ہے، لیکن اس وقت ان جیلوں میں تقریباً 80 ہزار قیدی موجود ہیں اور ان میں سے دو تہائی قیدی ایسے ہیں جن کے مقدمات کی سماعت ابھی مکمل ہونا باقی ہے۔

XS
SM
MD
LG