اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر توہین مذہب سے متعلق مواد جاری کرنے والوں کے خلاف تحقیقات میں انتہائی احتیاط سے کام لیں اور ان کے بقول توہین مذہب کے مرتکب افراد کسی طور بھی سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔
انھوں نے یہ بات سوشل میڈیا پر توہین مذہب پر مبنی مواد کو روکے جانے کے لیے دائر کی گئی ایک درخواست کی پیر کو ہونے والی سماعت کے دوران کہی۔
سماعت میں وفاقی تفتیشی ادارے "ایف آئی اے" کے سربراہ مظہر کاکا خیل نے ایک رکنی بینچ کو بتایا کہ حکومت نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ "فیس بک" سے رابطہ کر کے تین ایسے صفحات کے ریکارڈ تک رسائی کی درخواست کی ہے جو مبینہ طور پر توہین آمیز مواد پھیلا رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان تینوں پیجز کو بلاک کر دیا گیا ہے جب کہ پانچ سے چھ دیگر ایسے ہی صفحات کی نشاندہی کی جا چکی ہے۔
حالیہ ہفتوں میں اس درخواست کی سماعت کے تناظر میں بعض حلقوں کی طرف سے پاکستان میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کو کلی طور پر بند کرنے یا ان تک رسائی کو محدود کرنے سے متعلق خدشات کا بھی اظہار کیا جاتا رہا ہے۔
اس کی وجہ بظاہر 2012ء میں وڈیو شیئرنگ کی معروف ویب سائٹ "یو ٹیوب" پر اسلام مخالف فلم کے کچھ حصے جاری ہونے کے بعد پاکستانی حکام کی طرف سے انھیں ہٹائے جانے کی درخواستوں پر عملدرآمد نہ ہونے کے بعد ملک میں یو ٹیوب تک رسائی کی بندش ہے جو کہ تقریباً ساڑھے تین سال تک جاری رہی تھی۔
انٹرنیٹ صارفین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے ماضی میں ویب سائٹس تک رسائی پر پابندی کو شہریوں کو بنیادی آئینی حق سے محروم کرنے کے مترداف قرار دیا جاتا رہا ہے۔
لیکن پیر کو ہونے والی سماعت میں جسٹس صدیقی کا کہنا تھا کہ اظہار رائے کی آزادی کے آئینی حق سے متعلق بھی لوگوں میں ابہام پیدا کیا جاتا رہا ہے جسے دور کرنے کے لیے عوام کو اس بارے میں صحیح طور پر آگاہ کیا جانا چاہیے۔
پاکستان کے آئین کی شق 19 میں شہریوں کو اظہار رائے کی آزادی دی گئی ہے لیکن اس میں ساتھ ہی یہ بھی درج ہے کہ "اسلام کی عظمت یا پاکستان یا اس کے کسی حصے کی سالمیت، سلامتی یا دفاع، غیر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات، امن عامہ، تہذیب یا اخلاق کے مفاد کے پیش نظر یا توہین عدالت، کسی جرم (کے ارتکاب) یا اس کی ترغیب سے متعلق قانون کے ذریعے عائد کردہ مناسب پابندیوں کے تابع ہر شہری کو تقریر اور اظہار خیال کی آزادی کا حق ہوگا۔"
سینیئر قانون دان اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران مرتضیٰ کہتے ہیں کہ آزادی اظہار کے ساتھ شہریوں پر ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ ان کے خیال کے اظہار سے کسی دوسرے کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ توہین مذہب اور منافرت سے متعلق مواد کے پھیلاؤ کی اجازت نہیں ہونی چاہیے لیکن ان کے خیال میں سماجی رابطوں تک رسائی کو مکمل طور پر بند کرنا مناسب اقدام نہیں ہو سکتا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس درخواست کی آئندہ سماعت 17 مارچ کو ہو گی۔
دریں اثناء حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر اور ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے امور داخلہ کے سربراہ رحمٰن ملک نے بھی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ جلد از جلد توہین مذہب پر مبنی مواد کو انٹرنیٹ سے ہٹانے کے لیے ٹھوس اقدام کرے۔
پیر کو کمیٹی کے اجلاس کے دوران ان کا کہنا تھا کہ حکومت ایسے معاملات کے دیرپا حل کے لیے اقدام وضع کرے۔
حکومت یہ کہتی آئی ہے کہ وہ ملک میں انٹرنیٹ پر ایسے مواد تک رسائی کو روکنے کے موثر اقدام کر رہی ہے اور پیر کو ہی حکام نے عدالت عالیہ کو بتایا تھا کہ مبینہ طور پر توہین آمیز مواد پر مبنی ستر سے زائد ویب سائٹس کو اب تک بند کیا جا چکا ہے۔