پاکستان کی سپریم کورٹ نے این آر او عمل درآمد کیس میں عدالتی فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی ہے۔
جمعرات کو اٹارنی جنرل عرفان قادر نے پانچ رکنی عدالتی بینچ کو بتایا کہ ان کی وزیر اعظم اور وفاقی وزیر قانون سے مشاورت ہوئی ہے، اور وہ اس بارے میں مزید مشاورت کے بعد معاملے کو احسن طریقے سے ہمیشہ کے لیے حل کرنا چاہتے ہیں۔
سماعت کے بعد عدالت عظمیٰ کے احاطے میں وزیر قانون فاروق حمید نائیک نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ عدالت میں آج اس نظریے سے آئے تھے کہ آئین اور قانون کے مطابق مثبت قدم اٹھانا ہے۔
’’ہم نے درخواست کی کہ ڈسکشن کے لیے ہمیں اور وقت چاہیئے تاکہ ہم اس (معاملے) کو حل کر سکیں اور حکومتِ پاکستان این آر او کے فیصلے کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کر سکے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ ان کا عدالت میں پیش ہونا اس بات کی گواہی ہے کہ حکومت سنجیدہ ہے۔ ’’ہر چیز کو مدنظر رکھا جائے، جو بھی فیصلہ ہو وہ قانون اور آئین کے مطابق ہو کیونکہ آئین اور قانون سب سے اہم ہے۔‘‘
فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل کے ہمراہ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سے ہونے والی مشاورت میں بھی یہ بات کی گئی تھی کہ اس معاملے پر مزید بات چیت کی جائے گی اور ’’ کوئی راستہ اختیار کیا جائے جس سے کہ ادارے کے درمیان تصادم نہ ہو۔‘‘
جمعرات کو اٹارنی جنرل عرفان قادر نے پانچ رکنی عدالتی بینچ کو بتایا کہ ان کی وزیر اعظم اور وفاقی وزیر قانون سے مشاورت ہوئی ہے، اور وہ اس بارے میں مزید مشاورت کے بعد معاملے کو احسن طریقے سے ہمیشہ کے لیے حل کرنا چاہتے ہیں۔
سماعت کے بعد عدالت عظمیٰ کے احاطے میں وزیر قانون فاروق حمید نائیک نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ عدالت میں آج اس نظریے سے آئے تھے کہ آئین اور قانون کے مطابق مثبت قدم اٹھانا ہے۔
’’ہم نے درخواست کی کہ ڈسکشن کے لیے ہمیں اور وقت چاہیئے تاکہ ہم اس (معاملے) کو حل کر سکیں اور حکومتِ پاکستان این آر او کے فیصلے کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کر سکے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ ان کا عدالت میں پیش ہونا اس بات کی گواہی ہے کہ حکومت سنجیدہ ہے۔ ’’ہر چیز کو مدنظر رکھا جائے، جو بھی فیصلہ ہو وہ قانون اور آئین کے مطابق ہو کیونکہ آئین اور قانون سب سے اہم ہے۔‘‘
فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل کے ہمراہ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سے ہونے والی مشاورت میں بھی یہ بات کی گئی تھی کہ اس معاملے پر مزید بات چیت کی جائے گی اور ’’ کوئی راستہ اختیار کیا جائے جس سے کہ ادارے کے درمیان تصادم نہ ہو۔‘‘