پہلے آسٹریلیا، پھر انگلینڈاور اب نیوزی لینڈ، گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان کرکٹ ٹیم یکے بعد دیگرے اپنی سرزمین پر، ہوم کراؤڈ کے سامنے ٹیسٹ سیریز جیتنے میں ناکام ہوئی ہے۔
گزشتہ سال آسٹریلیا سے تین میچ سیریز کا ایک میچ، اور انگلینڈ سے تینوں ٹیسٹ میچ ہارنے والی ٹیم نے نیوزی لینڈ کے خلاف بہتر کھیل پیش کیا، لیکن نہ تو سیریز میں فتح حاصل کی، نہ مخالف ٹیم کو جیتنے دیا۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ہوم ٹیسٹ سیریز میں کارکردگی اس لیے شائقین کرکٹ کے لیے حیران کن ہے کیوں کہ اسی عرصے کے دوران قومی ٹیم کی ون ڈے انٹرنیشنل ، ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل اور انٹرنیشنل ٹورنامنٹس میں پرفارمنس اچھی رہی۔
جس وقت پاکستانی ٹیم اپنے ملک میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچز جیتنے سے قاصر تھی، اسی کپتان اور تقریبا انہی کھلاڑیوں کے ساتھ اسی ٹیم نے ایشیا کپ اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا فائنل کھیلا تھا۔
ہوم سیریز کے میچوں میں فائنل الیون میں موجود کپتان بابر اعظم، اوپنر امام الحق، وکٹ کیپر محمد رضوان اور فاسٹ بالر شاہین شاہ آفریدی آئی سی سی کی پلیئر رینکنگ میں ٹاپ ٹین میں موجود تھے ،جبکہ محمد رضوان کو تو متعدد بار پلیئر آف دی منتھ کے لیے بھی منتخب کیا گیا۔
ایک طرف قومی ٹیم نیوزی لینڈ کو اس کے ہوم گراؤند پر شکست دے کر سہ ملکی سیریز اپنے نام کررہی تھی تو دوسری جانب اپنے ملک میں اسی نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں فتح حاصل کرنے سے قاصر رہی۔
کچھ شائقین اس ناقص کارکردگی کا ذمہ دار ہیڈ کوچ ثقلین مشتاق کو قرار دے رہے ہیں تو چند ایک نے سابق چیرمین رمیز راجہ کی پالیسیوں کو اس کارکردگی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
تاہم نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز کے بعد جو وجوہات سامنے آئی ہیں، وہ زیادہ بڑی نہیں۔ ان پر اگر قابو پالیا گیا تو پاکستانی ٹیم ایک مرتبہ پھر اپنی سرزمین پر جیت کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہے۔
کپتان بابر اعظم کی دفاعی حکمت عملی، مبصرین خوش نہ مداح
جب بابر اعظم نے جنوری 2021 میں قومی ٹیم کی قیادت سنبھالی تھی تو اس وقت انہیں بورڈ کے چیرمین احسان مانی، ٹیم کے ہیڈ کوچ مصباح الحق اور بالنگ کوچ وقار یونس کے ساتھ ساتھ چیف سلیکٹر محمد وسیم کا اعتماد بھی حاصل تھا۔
اسی لیےپاکستان کے دورے پر آئی ہوئی جنوبی افریقی ٹیم کو ٹیسٹ سیریز میں شکست دے کر بابر اعظم نے کپتانِ اعظم بننے کی طرف پہلا قدم بڑھایا اور ڈیبیوسیریز کے دونوں میچ جیت کر کامیاب انداز میں قیادت کے دور کا آغاز کیا۔
لیکن اس سیریز کے بعد سے اب تک، پاکستانی ٹیم ہوم گراؤنڈ پر کوئی میچ جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ جہاں سابق چیئرمین رمیز راجہ کی بیٹنگ کے لیے سازگار وکٹ بنانے کی حکمت عملی تھی وہیں بابر اعظم کی کپتانی، جس پر مبصرین نے کئی مرتبہ تنقید کی۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم ہی تھے جب گزشتہ سال آسٹریلیا کی ٹیم 24 سال بعد میزبان ٹیم کو اس کی سرزمین پر شکست دینے میں کامیاب ہوئی۔ جبکہ انگلینڈ نے پاکستان کو اس کے ہوم گراؤنڈ پراس کی تاریخ کے پہلے وائٹ واش سے دو چار کیا۔
ماہرین کے خیال میں کپتان بابر اعظم ٹیم میں ان کھلاڑیوں کو رکھتے ہیں جو ان سے قریب ہوں۔ جبکہ چند ایک نے ان کے فیلڈ پر فیصلوں پر اعتراض کیا۔ کچھ کے خیال میں ان کی دفاعی حکمت عملی دوسرے کھلاڑیوں پر اثر انداز ہوتی ہے تو بعض مبصرین کو فیلڈ پر ان کے گم سم رہنے پر اعتراض ہے۔
نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ کے دوران جب بابر اعظم فیلڈ سے کچھ وقت کے لیے باہر گئے، تو سابق کپتان سرفراز احمد نے ان کی غیر موجودگی میں قیادت کے فرائض انجام دیے، اور شائقین کرکٹ نے دونوں کے اسٹائل میں فرق کو محسوس کیا۔
نیوزی لینڈ کے خلاف بابر اعظم نے دونوں ہوم ٹیسٹ میچوں کے آخری دن دلیرانہ فیصلےتو کیے لیکن کسی بھی میچ کا نتیجہ نہیں آیا، اور یوں گزشتہ دو سال کے دوران پہلے دو میچ جیتنے کے بعد ان کی کپتانی میں پاکستان نے ملک میں کوئی میچ نہیں جیتا۔
فرسٹ کلاس میں اچھی کارکردگی دکھانے والوں پر وائٹ بال اسٹارز کو ترجیح دینا
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی کو جس دن قومی ٹیم کا چیف سلیکٹر بنایا، انہوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز کے لیے ٹیم میں اضافی کھلاڑیوں کو شامل کرکے سب کو حیران کردیا ، یہ شاہدآفریدی ہی تھے جنہوں نے آؤٹ آف فارم محمد رضوان کی جگہ سرفراز احمد کو فائنل الیون میں شامل کرنے پر زورڈالا، جو سیریز کے بہترین پلیئر قرار پائے۔
اس سے قبل وہ ایک انٹرویو میں واضح کرچکے تھے کہ ان کی کوشش ہوگی کہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں اچھی کارکردگی دکھانے والوں کو زیادہ موقع دیا جائے، کیوں کہ ٹیسٹ ٹیم میں سلیکشن کے سب سے زیادہ حقدار وہی ہوتے ہیں۔
یہی وہ ایک بات تھی جو سبکدوش ہونے والے چیف سلیکٹر محمد وسیم سمجھنے سے قاصر تھے۔ ان کے دور میں دس ہوم ٹیسٹ میچوں میں 8 کھلاڑیوں کو ٹیسٹ کیپ دی، جس میں ایک ہی ٹیسٹ میں چار نئے کھلاڑیوں کو ڈیبیو کرانے کا کارنامہ بھی شامل ہے۔
2021 میں جنوبی افریقہ کے خلاف دو میچ کی سیریز میں اوپنر عمران بٹ، اور لیفٹ آرم اسپنر نعمان علی ٹیم میں آئے۔ جبکہ انگلینڈ کے خلاف فاسٹ بالر حارث روؤف اور محمد علی، مڈل آرڈر بلے باز سعود شکیل، آل راؤنڈر محمد وسیم جونیئر، لیگ اسپنرز زاہد محمود اور ابرار احمد کو ٹیسٹ کھیلنے کاموقع دیا گیا۔
جس وقت زاہد محمود کو ٹیسٹ الیون میں شامل کیا گیا اس وقت ان کی عمر 34 برس تھی۔ دوسرا وہ فرسٹ کلاس میں اچھا پرفارم بھی نہیں کررہے تھے۔ ان کو نوجوان ابرار احمد پر صرف اس وجہ سے فوقیت دی گئی کیوں کہ ٹیم مینجمنٹ کے بقول وہ ٹیم کے ساتھ زیادہ عرصے سے تھے۔
اسی لیے جب ابرار احمد نے انگلینڈ کے خلاف ڈیبیو میچ میں 11 وکٹیں حاصل کیں، تو کرکٹ شایقین کو حیرانی ہوئی کہ ایک اچھے لیگ اسپنر پر عمررسیدہ کھلاڑی کو کیوں ترجیح دی گئی۔
اسی طرح محمد وسیم جونیئر اور حارث روؤف کو ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں اچھی کارکردگی پر ٹیم میں شامل کیا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حارث روؤف ڈیبیو میچ کے دوران ہی انجری کا شکار ہوگئے۔
اوپنرز میں سے ایک کا چلنا، ایک کا فیل ہونا معمول بن گیا
بابر اعظم کے پہلے دو ہوم ٹیسٹ میں پاکستان نے کامیابی تو حاصل کی، لیکن سیریز میں دونوں اوپنرز نعمان بٹ اور عابد علی بری طرح فیل ہوئے تھے ، جس کے بعد اگلی ہوم سیریز میں اوپننگ جوڑی تبدیل کرکے امام الحق اور عبداللہ شفیق کو کھلایا گیا۔
دونوں کھلاڑیوں نے گزشتہ سال آسٹریلیا کے خلاف ہونے والے پنڈی ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں سنچری شراکت قائم کی تھی اور بعد میں جب اسی وکٹ پر انگلینڈ کے خلاف دونوں نے میچ کھیلا، تب 225 رنز جوڑ کر پاکستان کو اچھا آغاز فراہم کیا۔
لیکن پنڈی میں کھیلے جانے والے میچوں کے علاوہ ان دونوں کا سب سے بڑا اسٹینڈ 77 رنز رہا، یہاں عبداللہ شفیق کی بات کرنا غلط نہ ہوگا جنہوں نے انگلینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں 114 رنز بنانے کے بعد سے کوئی قابلِ ذکر اننگز نہیں کھیلی، ماسوائے ایک 45 رنز کی اننگز کے ، وہ دو چار ٹیسٹ میچوں میں بری طرح ناکام ہوئے۔
ایک میچ میں امام الحق کی جگہ شان مسعود کو ان کے ساتھ بطور اوپنر کھلایا گیا لیکن اس سے بھی زیادہ فرق نہیں پڑا اور مخالف ٹیموں کی نسبت پاکستان کا اوپننگ اسٹینڈ کامیابی سے زیادہ ناکام ہوتا دکھائی دیا۔اس کے برعکس آسٹریلیا اور انگلینڈ کے اوپنرز نے ایک ایک، جبکہ نیوزی لینڈ کے اوپنرز نے اپنی ٹیم کو پہلی وکٹ کی شراکت میں دو دو اوپننگ اسٹینڈ فراہم کئے۔
مڈل آرڈر کی بہتر کارکردگی، مگر اجتماعی نہیں، انفرادی طور پر
تجربہ کار بلے باز اظہر علی کی ریٹائرمنٹ اور آؤٹ آف فارم فواد عالم کو ایک بار پھر ڈراپ کرنے سے مڈل آرڈر میں جو خلا پیدا ہوا، اس کو پاکستانی بلے باوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز سے پر تو کرنے کی کوشش کی، لیکن اجتماعی نہیں، انفرادی طور پر۔
اسی لیے کیویز کے خلاف سلمان علی آغا، سعود شکیل اور سرفراز احمدکی سنچریوں کے باوجود پاکستانی ٹیم سیریز جیتنے میں ناکام رہی، جس کی سب سے بڑی وجہ تینوں کھلاڑیوں نے الگ الگ موقع پر بڑی اننگز کھیلی نہ کہ ایک میچ میں۔
دیگر ٹیموں پر اگر نظر ڈالی جائے تو ان کا مڈل آرڈر کبھی کبھی تو ٹاپ آرڈر کو بھی کارکردگی میں پیچھے چھوڑ دیتا ہے، لیکن پاکستان میں مڈل آرڈر کا انتخاب کرتے ہوئے عجیب منطق استعمال کی جاتی ہے، ایک طرف فواد عالم کو ایک خراب سیریز پر باہر کردیا جاتا ہے تو اظہر علی کو کہیں کم اسکور کے باوجود ٹیم کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔
اگر قومی ٹیم کو آئندہ ہوم سیریز یا پھر انٹرنیشنل سیریز میں اچھا کھیل پیش کرنا ہے تو اس کے لیے مڈل آرڈر کو زیادہ محنت کرنی پڑے گی،اس کا مطلب اوپنرز کو مڈل آرڈر میں موقع دینے کے بجائے ایسے کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کرنا ہوگا جو وکٹیں گرنے کے سلسلے کو روکنے کے ساتھ ساتھ نچلے نمبر کے بلے بازوں کے ساتھ رنز بنانے کا ہنر بھی جانتے ہوں۔
ایک اچھے آل راؤنڈر کی کمی کو ٹیم نے سختی سے محسوس کیا گیا
اس وقت دنیا کی ہر ٹیم کے پاس کم از کم ایک کوالٹی آل راؤنڈر موجودہے، جو بیٹنگ اور بالنگ دونوں سے ٹیم کی مدد کرتا ہے، انگلینڈ کے پاس اگر بین اسٹوکس ہے، تو آسٹریلیا کے پاس کیمرون گرین، بنگلہ دیش کے پاس شکیب الحسن، اور بھارت کے پاس روویندرا جڈیجا اور آر ایشون۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ جس ملک نے مشتاق محمد ، عمران خان، وسیم اکرم اور عبدالرزاق جیسے آل راؤنڈر دنیائے کرکٹ کو دیے، اس کے پاس اس وقت کوئی ایسا کھلاڑی نہیں، جس پر بیٹنگ کے وقت رنز بنانے، اور بالنگ کے وقت وکٹیں لینے کے لیے بھروسہ کیا جاسکے۔
ہوم ٹیسٹ کے دوران فہیم اشرف ، محمد نوا ز اور محمد وسیم جونیئر کو آل راؤنڈر کے طور پر کھلایا گیا لیکن ان میں سے کوئی بھی اس رول میں فٹ نہ ہوسکا ، انگلینڈ کے خلاف جن دو ٹیسٹ میچ میں فہیم اشرف کو بطور آل راؤنڈر کھلایا گیا اس میں نہ تو وہ کوئی وکٹ لے سکے اور نہ ہی کوئی نصف سنچری بناسکے۔
فہیم اشرف کا چار اننگز میں مجموعی اسکور 40 سے بھی کم تھا، جبکہ محمد نواز اور محمد وسیم کاریکارڈ بھی زیادہ مختلف نہیں۔بیٹنگ میں تو ان دونوں نے ایک ایک اننگز میں 40 کے لگ بھگ رنز بنائے، لیکن وکٹیں لینے میں موثر ثابت نہ ہونے کی وجہ سے دونوں کے ٹیسٹ کریئر پر سوالیہ نشان ہے۔
پاکستان کا ناتجربہ کار پیس اٹیک غیر معیاری وکٹوں پر ایکسپوز ہوگیا
آسٹریلیا کے خلاف سیریز کے دوران تو کمنٹری کرنے والے سابق کرکٹرز نے وکٹ کو دبے الفاظ میں ناقص کہا لیکن انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچوں میں جس قسم کی وکٹیں تیار کی گئیں ان پر سب نے دل کھول کر تنقید کی۔
اگر سن 2000 میں پاکستان کو کراچی میں شکست دے کر جانے والی انگلش ٹیم کے کپتان ناصر حسین اور رکن مائیکل ایتھرٹن نے پاکستانی وکٹوں پر حیرت کا اظہار کیا تو سابق کیوی فاسٹ بالر سائمن ڈول نے سوال اٹھایا کہ کیا پاکستان میں بری وکٹوں کی تیاری کے پیچھے بابر اعظم ہیں جو اپنا ریکارڈ بہتر کرنے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔
بات چاہے جو بھی ہو، ان وکٹوں کی وجہ سے نہ تو کپتان فائنل الیون ٹھیک انداز میں بناسکا ہے، نہ ہی بالرز کو ان سے کسی قسم کی مدد ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آخری مرتبہ پانچ وکٹیں لینے والے حسن علی نے کراچی ٹیسٹ میں کیوی کھلاڑی کو آؤٹ کرنے کے بعد گراؤنڈ میں سجدہ زیر ہوگئے۔
انہی وکٹوں پر بالنگ کرکے پہلے نسیم شاہ زخمی ہوئے، پھر انگلینڈ کے خلاف ڈیبیو ٹیسٹ میں حارث روؤف ، اور جو انجرڈ نہیں ہوئے انہیں وکٹیں ہی نہیں ملیں۔
سابق پی سی بی چیرمین رمیز راجہ کے چارج سنبھالنے سے قبل کھیلے جانے والے آخری ٹیسٹ میں حسن علی نے جنوبی افریقہ کے خلاف دس وکٹیں حاصل کی تھیں لیکن اس کے بعد سے کوئی بھی مقامی فاسٹ بالر ہوم گراؤنڈ پر اور ہوم کراؤڈ کے سامنے ایک ہی اننگز میں پانچ وکٹیں لینے کا کارنامہ انجام نہیں دے سکا۔
گزشتہ تین سیریز میں تو پاکستانی ٹیم نے صرف سات بار مخالف ٹیم کی دس وکٹیں حاصل کیں، جو ہر لحاظ سے اس ملک کے لیےشرمناک ہیں جس نے وسیم اکرم اور وقار یونس جیسے فاسٹ بالرز پیدا کیے، اور جہاں عمران خان، سرفراز نواز اور شعیب اختر نے اپنی تباہ کن بالنگ سے مخالف بلے بازوں کو پریشان رکھا۔
اس کے برعکس میزبان ٹیم 8 ٹیسٹ کی 11 اننگز میں مکمل طور پر آؤٹ ہوئی جن میں پنڈی میں کھیلے گئے دو ٹیسٹ میچ بھی شامل تھے، آسٹریلوی کپتان پیٹ کمنز نے ایک اننگز میں پانچ اور مجموعی طور پر سات وکٹیں حاصل کرکے پاکستانی بالرز کو بتایا کہ ڈیڈ وکٹوں پر کیسے بالنگ کرتے ہیں۔
یہی نہیں، ان وکٹوں سے ناآشنا انگلینڈ کے جیمز اینڈرسن، اولی رابنسن اور مارک وڈ، اور آسٹریلیا کے مچل اسٹارک بھی یہاں ایک اننگز میں چار چار کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے میں کامیاب ہوئے۔