پاکستان میں جون کا مہینہ موسمی تبدیلیوں کا مہینہ ہوتا ہے۔اس مہینے بارشیں نہ بھی ہوں تو سرشام بادل ضرور گھر آتے ہیں۔ کہیں کہیں موسلادھار بارشیں بھی ہوتی ہیں تو کہیں سخت ترین گرمی بھی پڑتی ہے۔ اس بار جو ن شروع ہوا تو پاکستان کرکٹ بورڈ میں بھی گرما گرم ہوائیں چلنے لگیں۔ان ہواوٴں کی بدولت نئے تنازعات ابھرے ۔ پھر یہ تنازعات اتنے شدید ہوگئے کہ ہرطرف انہی کے چرچے ہونے لگے۔
عجب اتفاق ہے کہ گزشتہ تین سالوں سے جون کے مہینے میں پی سی بی میں کچھ نہ کچھ ایسا ہوجاتاہے کہ جو یادگار بن جاتا ہے۔ جون دو ہزار نو پاکستان کرکٹ کیلئے انتہائی خوشگوار رہا جب ٹی ٹونٹی عالمی کپ پاکستان کا مقدر بنا اور خوشیوں کو ترسی قوم جھوم اٹھی ۔اس کے بعد جون دو ہزار دس اور جون دو ہزار گیارہ آئے مگر دونوں ماہ ایک دوسرے سے یکسر مختلف رہے۔گزشتہ جون میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر چلنے والے اس جون میں عدالتوں میں آمنے سامنے ہیں ۔ جون کے مہینوں کی اور کون کون سی ایسی یادیں کہ جو اب قابل ذکرہیں، آیئے ذیل میں ملاحظہ کریں:
ذکر جون دو ہزار دس کے پہلے ہفتے کا
کیا خوب دور تھا ،شاہد خان آفریدی اور چیئرمین پی سی بی اعجاز بٹ کی قربت قابل دید تھی ۔جون کے تیسرے ہی روز اعجاز بٹ اور شاہد خان آفریدی ایک ساتھ پریس کانفرنس کر رہے ہیں، اعجاز بٹ نے بال ٹیمپرنگ کی پاداش میں آفریدی پر عائد کیاجانے والا تیس لاکھ روپے کا جرمانہ معاف کرنے کا اعلان کیا۔ وہ اس وقت کے کپتان شاہد آفریدی سے کافی خوش نظر آرہے تھے ، نہ تو انہیں پی سی بی سے کوئی شکایت تھی اور نہ ہی کسی سلیکٹر سے ، بس ہر وقت جیت اور صرف جیت کا عزم دہرایا جارہا تھا ۔
شاہد آفریدی تو اتنے زیادہ فرمانبردار تھے کہ اگلے روز یعنی چار جون کو وہ ایک بار پھر اعجاز بٹ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ایک نرالی خواہش کر ڈالی کہ ان کا جرمانہ معاف نہ کیا جائے کیونکہ اس سے دیگر کھلاڑیوں پر منفی اثر ات مرتب ہوں گے ۔ وہ یہ جرمانہ دے کر ایک اچھی مثال قائم کرنا چاہتے ہیں تاکہ ڈسپلن کی خلاف ورزی کا کوئی سوچ بھی نہ سکے ۔ ۔۔ دوسری طرف اعجاز بٹ کی شفقت کا عالم یہ تھا کہ انہوں نے کہا کہ آپ دوسروں کیلئے اپنی کارکردگی سے اعلیٰ مثال قائم کریں اور آئندہ احتیاط سے کام لیں ۔
واہ ۔۔۔کیا دور تھا یہی بورڈ اور یہی اعجاز بٹ ، یہی سلیکٹرز اور یہی شاہد خان آفریدی!!!اس واقعے کے بعد تو ہر زبان سے یہی نکل رہا تھا کہ انصاف ہو تو ایسا ۔پی سی بی کی جانب سے نہ صرف شاہد آفریدی کے لئے بلکہ دیگر سزا یافتہ کھلاڑیوں کے لئے معافی کے دروازے کھلے تھے ۔پانچ جون کویونس خان کو بھی معاف کر دیا گیا اور دورہ انگلینڈ کیلئے محمد یوسف کو کھیلنے کی پیشکش کر دی گئی ، اسی طرح اکمل برادران کی سزا بھی آدھی کر دی گی اور رانا نوید الحسن کو بھی گرین سنگل دے دیا گیا ۔
لیکن سیانوں کے نزدیک ایک کڑی حقیقت یہ بھی ہے کہ ایک وقت میں تمام لوگ خوش نہیں رہ سکتے ۔ تین جون دو ہزار دس کو جہاں آفریدی خوش تھے وہیں کوچ وقار یونس کچھ ناراض تھے ، وقار یونس کا اعتراض تھا کہ ایشیا کپ اور انگلینڈ کیلئے ابتدائی اسکواڈ کی تشکیل میں انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا مگر اس پر اعجاز بٹ نے ان کی سخت سرزنش کی ، اعجاز بٹ کا کہنا تھا کہ کوچ کا کام ٹیم کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے نہ کہ ٹیم کو منتخب کرنا ، وقار یونس ،عاقب جاوید کی بطور بالنگ کوچ تقرری پر بھی کچھ ناراض تھے ۔
ذکر جون دو ہزار گیارہ کا
جون دو ہزار گیارہ کا پہلا ہفتہ پی سی بی چیئرمین اعجاز بٹ کیلئے کچھ زیادہ خوشگوا ر ثابت نہ ہو سکا ۔گزشتہ سال اس ماہ میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے، فوٹو کھچوانے والے اعجاز بٹ اور شاہد آفریدی اس بار آمنے سامنے کٹہرے میں کھڑے ہیں ۔ مہینے کا آغاز ہی شاہد آفریدی کو پی سی بی کی جانب سے شو کاز نوٹس سے ہوا جس میں انہیں ضابطہ اخلاق کی خلا ف ورزی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ایک ہفتے میں جواب مانگا گیا۔ اس کے ساتھ ان کا سینٹرل کنٹریکٹ اور دیگر لیگ وغیرہ کھیلنے کیلئے جاری این او سی بھی معطل کر دیئے گئے ۔
تین جون کوآفریدی کے قانونی مشیروں نے بورڈ کو ایک خط بھیجا جس میں کہا گیا کہ شو کاز بدنیتی پر مبنی ہے اور محب وطن کھلاڑی کا امیچ خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں۔
پانچ جون کو شاہد خان آفریدی کھل کر پی سی بی کے سامنے آ کھڑے ہوئے اور گزشتہ سال اسی مہینے کی چار تاریخ کو پی سی بی سے یہ درخواست کرنے والے کہ ان کو سزا دی جائے ، اب کہہ رہے ہیں کہ وہ پی سی بی کی کمیٹی کے سامنے کیسے پیش ہوسکتے ہیں ۔ یر پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران انہوں نے غیر جانبدار کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ بھی کیا اور ساتھ ساتھ دھمکی بھی دی کہ اگر انہیں این او سی جاری نہ کیا گیا تو وہ قانونی چارہ جوئی کر سکتے ہیں ۔
دوسری جانب اعجاز بٹ بھی گزشتہ سال کی طرح معافی کے موڈ میں نظر نہیں آئے اور میڈیا کے سامنے آکر صاف صاف کہہ دیا کہ اگر آفریدی پی سی بی کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوتے تو یکطرفہ کارروائی کا حق کمیٹی کو حاصل ہو گا ۔
سات جون کو شاہد خان آفریدی نے جب یہ سمجھا کہ گزشتہ مرتبہ کے اعجاز بٹ اب وہ نہیں رہے تو انہوں نے اپنا آخری پتا بھی پھینک دیا اور سندھ ہائی کورٹ میں پی سی بی کے خلاف درخواست دائر کر دی جس پر عدالت نے ڈسپلنری کمیٹی کا اجلاس معطل کرنے کا حکم دیتے ہوئے درخواست کو سماعت کیلئے منظور کر لیا ۔
پی سی بی اس بار انتہائی خراب موڈ میں نظر آ رہا ہے اور آفریدی سے محاز آرائی کرنے والے سلیکٹر محمد الیاس کوآٹھ جون کو جہاں معطل کر دیا گیا وہیں پاکستان وومن کرکٹ کی کپتان ثنا میر کو بھی شو کاز نوٹس جاری کر دیا گیا ۔ پی سی بی کا کہنا ہے کہ ثنا نے میڈیا پر بات چیت کے دوران انتظامیہ پر بے جا تنقید کی ہے ۔ پی سی بی اور آئی سی سی کے درمیان بھی محاز آرائی کا خدشہ ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ آئی سی سی نے تجویز دی ہے کہ بورڈز سے سیاسی مداخلت ختم ہونی چاہیے جبکہ پی سی بی کا کہنا ہے کہ یہاں تو صدر مملکت ہی کرکٹ بورڈ کے سرپرست اعلیٰ ہوتے ہیں لہذا پاکستان میں ایسا کیسے ممکن ہے ۔ محمد عامر بھی پابندی کے باوجود انگلش پریمئر کی طرف سے میدان میں اترے ہیں اور یہ معاملہ بھی پی سی بی کیلئے درد سر بن سکتا ہے ۔
اس تمام صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شاہد خان آفریدی کو ایک سال میں پی سی بی پر اعتماد کیوں نہیں رہا ؟ موجودہ پی سی بی کے ماتحت اگر وہ نہیں کھیلیں گے تو کیا عدالت میں ان کے جانے کا مقصد صرف این او سی لینا ہے ؟ شاہد آفریدی نے ایسا کیا کر دیا کہ پی سی بی کو انہیں کپتانی سے ہٹانا ہی مسائل کا حل تھا ؟
۔۔۔اور اس تمام تر صورتحال میں آپ کی رائے کیا ہے ؟