داتا گنج بخش کا عرس اور اس موقع پر منعقد ہونے والا روایتی میلہ صدیوں سے لاھور کا سب سے بڑا مذہبی و ثقافتی تہوارماناجاتا ہے۔ گذشتہ برس جولائی میں اس درگاہ پر ہونے والے خود کش حملوں میں چالیس سے زیادہ افراد ہلاک اور دو سوزخمی ہوگئے تھے جو اس سال عرس کی رونقوں میں نسببتاََ کمی کا باعث بتایا جارہاہے۔
دہشت گردی کی کسی نئی کارروائی کی حوصلہ شکنی کے لیے لاھور کے گنجان آباد علاقے میں واقع یہ مزار اور اس سے ملحقہ مسجد کے اِردگرد حفاظتی حصار اس قدر سخت کردیا گیا ہے کہ زائرین کو جگہ جگہ تلاشی دینا پڑتی ہے۔
داتا دربار کے منیجر محمد طارق نے وائس آف امریکہ کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ ایک شفٹ میں دو سو پولیس والے سکیورٹی کے فرائض انجام دے رہے ہیں اور اُن کی مدد کے لیے محکمہ اوقاف پنجاب کی اپنی سکیورٹی ٹیم بھی موجود ہے۔
انھوں نے بتایا کہ دربار اور مسجد میں داخل ہونے کے پندرہ مختلف راستے ہیں جن میں سے گیارہ کو بند کردیا گیا ہے اور صرف چار دروازے زیر استعمال رکھے گئے ہیں اور ان میں سے بھی ایک وی آئی پیز کے لیے ہے اور ایک خواتین کے لیے جب کہ صرف دو دروازے عام لوگوں کے لیے کھلے ہیں۔
مینجر محمد طارق نے کہا کہ زائرین کی تعداد گذشتہ برسوں کی نسبت یقیناً کم ہوئی ہے لیکن اُن کے بقول مزار پر خود کش حملوں کے بعد سکیورٹی کی صورتحال یکسر بدل گئی ہے اور کسی پہلو سے بھی حفاظتی اقدامات پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا گیا ہے۔
دربار پر موجود زائرین میں سے بیشتر اس بات پر خوش تھے کہ سکیورٹی سخت ہے۔ ان میں سے ایک زائر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’دربار کی حفاظت کی خاطر اُن کو درگاہ میں داخلےکے وقت بیس مرتبہ بھی تلاشی دینی پڑے تو اس کا بُرا نہیں منائیں گے‘‘۔
ان زائرین نے بھی تسلیم کیا کہ اس برس عقیدت مندوں کی تعداد کم ہے تاہم اُن کا کہنا تھا کہ جن عقیدت مندوں نے درگاہ پر آنا ہوتا ہے وہ ضرور آتے ہیں اور کافی لوگ باہر کے ملکوں سے بھی آتے ہیں۔
داتا دربار کے منیجر کا کہنا تھا کہ ’’بعض عقیدت مند بیرون ملک سے فون کر کے اُن سے درخواست کرتے ہیں کہ اُنھوں نے دعا کرنی ہے لہذا فون کو مزار کے قریب لے جائیں‘‘۔ انھوں نے بتایا کہ وہ کئی ایسے عقیدت مندوں کی خواہش پوری کرچکے ہیں اور پوری دُعا ان کو فون کے ذریعے سُنوا بھی چکے ہیں۔
داتا گنج بخش کے مزار پر تعینات محکمہ اوقاف پنجاب کے ڈائریکٹر مذ ہبی امور طاہر بخاری نے وائس آف امریکہ کےساتھ انٹرویو میں کہا کہ ان کا مشن یہ ہے کہ وہ زائرین کے چہرے پر اطمینان اور خوشی دیکھیں جو اُن کے کہنے کے مطابق سکیورٹی انتظامات انتہائی سخت ہونے کے بعد اکثر زائرین کے چہروں پر اُنھیں دکھائی دیتی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ زائرین کی تعداد میں کمی ضرور ہوئی ہے اور سخت سکیورٹی کی وجہ سے دربار پر لنگر کی تقسیم کا کام بھی نسبتاً کم ہوگیا ہے۔
دربار کے اِردگرد پکی پکائی دیگیں فروخت کرنے والے دوکانداروں نے بتایا کہ اُن کا کاروبار تو آدھا بھی نہیں رہا ہے اور چونکہ پولیس نے سکیورٹی کی وجہ سے بہت سے راستے بند کئے ہوئے ہیں لہذا دیگیں بانٹنے والے بھی کم ہی یہاں آرہے ہیں اور لنگر کھانے والوں کی تعداد بھی کافی محدود ہوگئی ہے۔ ایک ملنگ نے بتایا کہ تنگی بہت ہے مگر آج تک ایسا نہیں ہوا کہ اُنہیں اس درگاہ سے کھانا نہ ملا ہو۔
دربار کے باہر چڑھاوے کی چادریں فروخت کرنے والے ایک دوکاندار نے بتایا کہ اُنھوں نے گذشتہ سال عرس کے دِنوں میں بارہ سو سے زیادہ چادریں فروخت کی تھیں جبکہ اس سال فروخت ہونے والی چادروں کی تعداد سو سے بھی کم ہے۔ اس دوکاندار نے اُمید ظاہر کی کہ آئندہ برسوں میں صورتحال معمول پر آجائے گی اور اُن کی چادریں بھی زیادہ تعداد میں بِکنے لگیں گی۔
زائرین کی تعداد کم ہونے کے باعث مزار کے گردونواح کے علاقے اور مینار ِ پاکستان کے قریب جو عرس کا میلہ لگتا ہے اس کی رونق بھی نسبتاً کچھ کم ہے لیکن پھر بھی ان علاقوں میں جھولے لگے ہوئے ہیں ، سرکس چل رہے ہیں اور ساتھ ہی ٹھیلوں اور زمین پر بھی مٹی کے برتن ، دیہات میں بنی دریاں، غالیچے اور بچوں کے کھلونے بِک رہے ہیں۔ جلیبیاں، میٹھے پکوڑے، اندرسے اور قتلمے وغیرہ بھی تلے جارہے ہیں۔
لاھور کے بارے میں تحریر کی گئ پرانی کتابوں میں مسلمان، ہندو اور سکھ مصنفین سب نے داتا گنج بخش کی درگاہ اور اس سے تمام مذاہب سے ماننے والوں کی عقیدت کا ذکر کیا ہے۔ تقسیمِ ہند سے پہلے یہاں مسلمانوں کے علاوہ ہندو اور سکھ بھی کافی تعداد میں سلام کرنے یا منت ماننے آتے تھے لیکن اُنیس سو سینتالیس کے فسادات کی تلخی کی وجہ سے کئی عشروں تک ہندو سکھ اس درگاہ پر نہیں آسکے کیونکہ پاک بھارت تعلقات کی کشیدگی کے سبب یہ ممکن نہیں رہا تھا۔
صدر مشرف کے دور میں پاک بھارت تعلقات میں جو بہتری آئی اس دوران میں جو ہندو اور سکھ جتھے پاکستان آتے تھے اُن میں سے بعض عقیدت مند داتا دربار جا کر حاضری بھی دیتے تھے۔ لاھور میں ہندو برادری کے رہنما اور کرشنا مندر سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر منوہر چاند نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہندواور سکھ اگر داتا صاحب سلام کرنے جائیں تو ان کو کوئی منع نہیں کرتا۔ ’’جس طرح ہندو اورسکھ اجمیر شریف جاتے ہیں ، نظام الدین اولیاء کے مزار پر جاتےہیں، سرھند شریف جاتےہیں اور امرتسر میں زارا ولی کی درگاہ کی زیارت کو جاتے ہیں اُسی طرح جن کو عقیدت ہوتی ہے وہ داتا دربار درشن کو آجاتے ہیں۔‘‘
دربار کے منیجر محمد طارق نے خود کش حملوں کے بعد کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دھماکوں کے دوران درگاہ کے جن حصوں کو نقصان پہنچا تھا اُن کی چند ہفتوں ہی میں مرمت مکمل ہوگئ تھی اور اب ان دھماکوں کا کوئی نشان موجود نہیں ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ جن لوگوں کے عزیزو اقارب ان دھماکوں میں مارے گئے تھے اُن کے دل البتہ اب بھی دُ کھی ہیں اور وہ لوگ باقاعدگی سے مزار پر حاضری کے لیے آتے ہیں اور اپنے پیاروں کو یاد کرتے ہیں۔ ’’یہ لوگ بتاتے ہیں کہ ان کو یہاں آکر بہت سکون ملتا ہے۔‘‘