واشنگٹن —
پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی کے حوالے سے نازک صورتحال کا سامنا ہے اور رواں مالی سال کے اختتام تک اس بحران سے بچنے کے لیے اسے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ’آئی ایم ایف‘ سے ایک مالی پیکج درکار ہو گا۔
ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے کنٹری ڈائریکٹر وارنر لیپیک نے خبر رساں ادارے ’رائیٹرز‘ کو انٹرویو میں بتایا کہ پاکستان کی معاشی صورتحال کے تحفظ کے لیے نو ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں اس وقت صرف دو ماہ کی درآمدات کے برابر زرمبادلہ کے ذخائر موجود ہیں۔
اقتصادی مشکلات اور قرضوں کی ادائیگیوں کے حوالے سے پاکستان کو درپیش مسائل کے علاوہ پاکستان کو طالبان کی جانب سے دہشت گردی کی کارروائیوں کا سامنا ہے جبکہ دوسری جانب فرقہ وارانہ کارروائیوں میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ان سب مشکلات کے ساتھ ساتھ پاکستان کو توانائی کے شدید بحران کا بھی سامنا ہے جس سے صنعتیں متاثر ہو رہی ہیں۔
پاکستان نے 2008ء میں قرضوں کی ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانے کے لیے آئی ایم ایف سے گیارہ ارب ڈالر قرضہ لیا تھا جبکہ آئی ایم ایف نے 2011ء میں اقتصادی اصلاحات کے اہداف کو پورا نہ کرنے پر پاکستان کے ساتھ یہ معاہدہ ختم کر دیا تھا۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کے ڈائریکٹر وارنر سے جب پوچھا گیا کہ کیا پاکستان آئی ایم ایف سے قرضہ لیے بغیر اس مسئلے کو حل کر سکتا ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ ایسا ممکن ہے، ’’یہ وقت کا معاملہ ہے اور پاکستان کو مالی سال کے اختتام سے پہلے اس رقم کی ضرورت ہے۔ جو کہ چھ سے نو ارب ڈالر تک ہو سکتی ہے۔‘‘
پاکستانی تارکین وطن کی جانب سے ایک ارب ڈالر کی ماہانہ تر سیلات زر وطن بجھوانے سے پاکستان کی معیشت کو کسی حد تک سہارا ملا ہوا ہے۔
اے ڈی بی اور آئی ایم ایف پاکستانی حکومت سے یہ کہتے آئے ہیں کہ وہ معاشی استحکام اور محاصل میں اضافے کے لیے اہم اصلاحات کریں۔
وارنر کہتے ہیں کہ یہ وقت اصلاحات کا نہیں ہے کیونکہ ملک میں عام انتخابات ہونے والے ہیں لیکن اُن کا ماننا ہے کہ اصلاحات کے بغیر ملک کے معاشی حالات ٹھیک نہیں ہو سکتے۔
پاکستان کو اگلے دو سالوں میں آئی ایم ایف کے چھ اعشاریہ دو ارب ڈالرز سمیت متعدد عالمی اداروں کو قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے اور آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ وہ اس قرضے کو ری شیڈول کرنے پر غور نہیں کر رہا۔
ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے کنٹری ڈائریکٹر وارنر لیپیک نے خبر رساں ادارے ’رائیٹرز‘ کو انٹرویو میں بتایا کہ پاکستان کی معاشی صورتحال کے تحفظ کے لیے نو ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں اس وقت صرف دو ماہ کی درآمدات کے برابر زرمبادلہ کے ذخائر موجود ہیں۔
اقتصادی مشکلات اور قرضوں کی ادائیگیوں کے حوالے سے پاکستان کو درپیش مسائل کے علاوہ پاکستان کو طالبان کی جانب سے دہشت گردی کی کارروائیوں کا سامنا ہے جبکہ دوسری جانب فرقہ وارانہ کارروائیوں میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ان سب مشکلات کے ساتھ ساتھ پاکستان کو توانائی کے شدید بحران کا بھی سامنا ہے جس سے صنعتیں متاثر ہو رہی ہیں۔
پاکستان نے 2008ء میں قرضوں کی ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانے کے لیے آئی ایم ایف سے گیارہ ارب ڈالر قرضہ لیا تھا جبکہ آئی ایم ایف نے 2011ء میں اقتصادی اصلاحات کے اہداف کو پورا نہ کرنے پر پاکستان کے ساتھ یہ معاہدہ ختم کر دیا تھا۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کے ڈائریکٹر وارنر سے جب پوچھا گیا کہ کیا پاکستان آئی ایم ایف سے قرضہ لیے بغیر اس مسئلے کو حل کر سکتا ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ ایسا ممکن ہے، ’’یہ وقت کا معاملہ ہے اور پاکستان کو مالی سال کے اختتام سے پہلے اس رقم کی ضرورت ہے۔ جو کہ چھ سے نو ارب ڈالر تک ہو سکتی ہے۔‘‘
پاکستانی تارکین وطن کی جانب سے ایک ارب ڈالر کی ماہانہ تر سیلات زر وطن بجھوانے سے پاکستان کی معیشت کو کسی حد تک سہارا ملا ہوا ہے۔
اے ڈی بی اور آئی ایم ایف پاکستانی حکومت سے یہ کہتے آئے ہیں کہ وہ معاشی استحکام اور محاصل میں اضافے کے لیے اہم اصلاحات کریں۔
وارنر کہتے ہیں کہ یہ وقت اصلاحات کا نہیں ہے کیونکہ ملک میں عام انتخابات ہونے والے ہیں لیکن اُن کا ماننا ہے کہ اصلاحات کے بغیر ملک کے معاشی حالات ٹھیک نہیں ہو سکتے۔
پاکستان کو اگلے دو سالوں میں آئی ایم ایف کے چھ اعشاریہ دو ارب ڈالرز سمیت متعدد عالمی اداروں کو قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے اور آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ وہ اس قرضے کو ری شیڈول کرنے پر غور نہیں کر رہا۔