پاکستانی صحافی سرل المائڈا پر عائد سفری پابندیاں ختم کرنے کے لیے مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں کے مطالبات کو پاکستان کی طرف سے تاحال تسلیم نہیں کیا گیا ہے اور عہدیداروں کا اصرار ہے کہ اس اقدام کا مقصد قومی سلامتی سے متعلق اجلاس کے بارے میں خبر کی انکوائری کو جلد منطقی انجام تک پہنچانا ہے۔
انگریزی روزنامہ ’ڈان‘ کے صحافی سرل المائڈا کو پیر کو یہ بتایا گیا تھا کہ اُن کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ یعنی ’ای سی ایل‘ میں شامل کر دیا گیا ہے۔
اقدام کے سبب سرل اپنے خاندان کے ساتھ چھٹیوں پر دبئی نہیں جا سکے۔
اس سخت اقدام کی وجہ روزنامہ ’ڈان‘ میں چھ اکتوبر کو چھپنے والی وہ خبر بنی، جس میں اعلیٰ سطحی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان میں سرگرم شدت پسند گروپوں سے نمٹنے کے بارے میں ملک کی سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان غیر معمولی سخت جملوں کے تبادلے کے بارے میں خبر دی گئی۔
پاکستانی وزارت داخلہ کے ایک سینیئر عہدیدار نے بدھ کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’سرل المائڈا کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا مقصد اس صحافی کی طرف سے غلط، من گھڑت اور گمراہ کن خبر کی تحقیقات کو جلد مکمل کرنا ہے۔‘‘
وزارت داخلہ کے عہدیدار کے مطابق صحافی سرل پر ملک کے اندر کسی طرح کی نقل و حرکت پر پابندی نہیں ہے۔
صحافی سرل المائڈا نے منگل کو سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ’ٹوئٹر‘ پر اپنے ایک پیغام میں کہا تھا کہ ’’مجھے تشویش ہے، ممکنہ طور یہ سمجھتا ہوں کہ، مجھ پر سفری پابندیاں عائد کرنے کے 24 گھنٹوں بعد حکومت مزید سخت اقدام کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔‘‘
یہ متنازع مضمون نام ظاہر کیے بغیر ذرائع کے حوالے سے لکھا گیا جس میں سیاسی قیادت نے متنبہ کیا تھا کہ اگر فوج پاکستان کی سرزمین پر بھارت اور افغانستان مخالف مذہبی گروپس کے خلاف کارروائی نہیں کرتی تو ملک کو بین الاقوامی سطح پر تنہائی کا سامنا کرنا ہوگا۔
یہ مبینہ انتباہ وزیراعظم کی صدارت میں جس اجلاس میں کیا گیا اس میں سرکاری عہدیداروں اور فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ بھی شریک تھے۔
تاہم حکومت مسلسل اخبار کی اس خبر کو "من گھڑت" اور "غیر ذمہ دارانہ صحافت" قرار دے رہی ہے اور پیر کو ہی وزیراعظم نواز ریف نے کہا کہ تھا کہ "اس کے ذمہ داروں کی نشاندہی کر کے ان کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔"
صحافیوں اور انسانی حقوق کی مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے بھی سرل المائڈا پر "پابندی" عائد کیے جانے پر برہمی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
"ڈان" اخبار نے بدھ کو اپنے اداریے میں ایک بار پھر اس خبر کی درستگی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ " اس کی تصدیق اور حقائق کی دوبارہ جانچ کی گئی اور اس اخبار کے مدیر اس کے پوری طرح سے ذمہ دار ہیں، حکومت کو فوری طور پر المائڈا کا نام ای سی ایل سے خارج کرنا چاہیے اور ان کا کچھ وقار بحال کرنا چاہیے۔"
ایک اور موقر انگریزی روزنامے "دی نیشن" نے بھی المائڈا کے دفاع میں سخت تنقیدی اداریہ لکھا ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ "حکومت ہمیں یہ بتانا چاہتی ہے کہ ہمیں اپنا کام کیسے کرنا چایہے، ہمارے پاس ان (حکومت) کے لیے مشورہ ہے کہ وہ کیسے اپنا کام بہتر کر سکتے ہیں۔ صحافیوں کو اکیلا چھوڑ دیں۔ پاکستان کے بیرون ملک تشخص کی فکر ہے۔۔۔ تو بحیثیت ملک ہمارے بعض اقدام کا (اس ضمن میں) دفاع مشکل ہے۔۔۔یہ سب جانتے ہیں، اس بارے میں سب جانتے ہیں، چاہیں ہم اس کے برخلاف ہی کیوں نہ دکھاوے کی کوشش کریں۔"
واشنگٹن میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے صحافیوں کو بتایا کہ امیکہ المائڈا پر پابندیوں سے متعلق اطلاعات سے آگاہ ہے۔ "ہمیں آزادی صحافت اور صحافیوں کو ان کا اہم کام کرنے کی قابلیت کو محدود کرنے کی کسی بھی کوشش پر تشویش ہے۔"
صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے بھی المائڈا پر سے فوری طور پر پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔
تنظیم کے ایشیا کے لیے پروگرام کوآرڈینیٹر اسٹیون بٹلر کا کہنا تھا کہ "پاکستان صحافیوں کے لیے خطرناک ملک ہو سکتا ہے، لیکن بے خوف آزاد صحافت اس قوم کی ایک قابل فخر روایت رہی ہے۔ اخباری خبر پر ناراضی کو صحافی کی آزادی کو محدود کرنے کے لیے بہانے کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔"
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے وزیراعظم نواز شریف کے دفتر سے اس ضمن میں جاری بیان کی زبان پر تنقید کرتے ہوئے المائڈا پر سفری پابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا۔
"حکام کا کسی خبر سے اختلاف ہونا ایک اور بات ہے، لیکن قومی سلامتی کی آڑ میں صحافی کو دھمکانا صریحاً ایک اور معاملہ ہے۔"