پاکستان اور بھارت کے اعلیٰ حکام کا ایک اجلاس جمعرات کو اسلام آباد میں ہو رہا ہے جس میں متنازع کشمیر میں حد بندی لائن یا ’ایل او سی‘ کے آر پار تجارت اور لوگوں کی آمد رفت میں اضافے پر تجاویز کا تبادلہ کیا جائے گا۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ورکنگ گروپ کا اجلاس رواں ماہ کے اوائل میں نئی دہلی میں پاک بھارت خارجہ سیکرٹریوں کے مابین ہونے والے مذاکرات کا تسلسل ہے۔
وزارتِ خارجہ کی ڈائریکٹر جنرل برائے جنوبی ایشیا زہرہ اکبری پاکستانی وفد جب کہ مسٹر وائے کے سنہا بھارتی وفد کی قیادت کریں گے۔
اُدھر کو بدھ کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب میں وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ ان کا ملک بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے۔
’’ہم چاہتے ہیں کہ دونوں اطراف کشیدگی کم ہو، تمام مسائل کا حل میز پر نکالا جائے۔ ہم نے مذاکرات کو بحال کیا جس سے آسانیاں پیدا ہوئیں۔‘‘
تاہم جموں و کشمیر مشترکہ چیمبر آف کامرس کے سابق چیئرمین ذوالفقار عباسی نے 2008ء میں ایل او سی کے آر پار شروع ہونے والی تجارت کے حجم میں کمی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اُنھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس تجارت میں پیسے کے لین دین کی اجازت نا ہونے کی وجہ سے تاجروں کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔
’’ہر ہفتے 400 ٹرک (ایل او سی) آر پار آیا جایا کرتے تھے لیکن اب ان کی تعداد کم ہو کر 50 سے 60 رہ گئی ہے جس پر ہمیں بڑی تشویش ہے۔ ہمارا خیال کہ جب تک دوطرفہ تجارت میں شامل اشیاء کی تعداد نہیں بڑھائی جائے گی یہ تجارت قابل عمل نہیں رہے گئی جس سے (یہ تجارتی سرگرمی) ختم ہو سکتی ہے۔‘‘
ذوالفقار عباسی نے اس توقع کا اظہار بھی کیا کہ پاک بھارت ورکنگ گروپ کے اجلاس میں دوطرفہ تجارت کو بڑھانے کے لیے عالمی سطحی پر مروجہ قوانین کے تحت بینکاری کی سہولت بھی فراہم کی جائے گی تاکہ اشیاء کے بدلے اشیاء کی تجارت کے فرسودہ نظام کو بدلا جا سکے۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات، خاص طور پر تجارتی روابط میں حالیہ مہینوں میں تیزی سے بہتری آئی ہے جب کہ رواں ہفتے دونوں ملکوں نے تقریباً پانچ سال کے تعطل کے بعد کرکٹ کے روابط بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں پاکستانی ٹیم دسمبر میں سیریز کھیلنے کے لیے بھارت جائے گی۔
مبصرین کا خیال ہے کہ حالات اگر اسی سمت میں آگے بڑھتے رہے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ ستمبر میں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ پاکستان کا مجوزہ دورہ بھی کریں گے جس کی صدر آصف علی زرداری نے انھیں دعوت دے رکھی ہے۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ورکنگ گروپ کا اجلاس رواں ماہ کے اوائل میں نئی دہلی میں پاک بھارت خارجہ سیکرٹریوں کے مابین ہونے والے مذاکرات کا تسلسل ہے۔
وزارتِ خارجہ کی ڈائریکٹر جنرل برائے جنوبی ایشیا زہرہ اکبری پاکستانی وفد جب کہ مسٹر وائے کے سنہا بھارتی وفد کی قیادت کریں گے۔
اُدھر کو بدھ کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب میں وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ ان کا ملک بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے۔
’’ہم چاہتے ہیں کہ دونوں اطراف کشیدگی کم ہو، تمام مسائل کا حل میز پر نکالا جائے۔ ہم نے مذاکرات کو بحال کیا جس سے آسانیاں پیدا ہوئیں۔‘‘
تاہم جموں و کشمیر مشترکہ چیمبر آف کامرس کے سابق چیئرمین ذوالفقار عباسی نے 2008ء میں ایل او سی کے آر پار شروع ہونے والی تجارت کے حجم میں کمی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اُنھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس تجارت میں پیسے کے لین دین کی اجازت نا ہونے کی وجہ سے تاجروں کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔
’’ہر ہفتے 400 ٹرک (ایل او سی) آر پار آیا جایا کرتے تھے لیکن اب ان کی تعداد کم ہو کر 50 سے 60 رہ گئی ہے جس پر ہمیں بڑی تشویش ہے۔ ہمارا خیال کہ جب تک دوطرفہ تجارت میں شامل اشیاء کی تعداد نہیں بڑھائی جائے گی یہ تجارت قابل عمل نہیں رہے گئی جس سے (یہ تجارتی سرگرمی) ختم ہو سکتی ہے۔‘‘
ذوالفقار عباسی نے اس توقع کا اظہار بھی کیا کہ پاک بھارت ورکنگ گروپ کے اجلاس میں دوطرفہ تجارت کو بڑھانے کے لیے عالمی سطحی پر مروجہ قوانین کے تحت بینکاری کی سہولت بھی فراہم کی جائے گی تاکہ اشیاء کے بدلے اشیاء کی تجارت کے فرسودہ نظام کو بدلا جا سکے۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات، خاص طور پر تجارتی روابط میں حالیہ مہینوں میں تیزی سے بہتری آئی ہے جب کہ رواں ہفتے دونوں ملکوں نے تقریباً پانچ سال کے تعطل کے بعد کرکٹ کے روابط بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں پاکستانی ٹیم دسمبر میں سیریز کھیلنے کے لیے بھارت جائے گی۔
مبصرین کا خیال ہے کہ حالات اگر اسی سمت میں آگے بڑھتے رہے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ ستمبر میں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ پاکستان کا مجوزہ دورہ بھی کریں گے جس کی صدر آصف علی زرداری نے انھیں دعوت دے رکھی ہے۔