بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر میں 10 سالہ جنگ بندی کے باوجود گزشتہ کئی روز سے فوجی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے جن میں اطلاعات کے مطابق دونوں ملکوں کا جانی نقصان بھی ہو چکا ہے۔
دس سال میں پہلی مرتبہ حد بندی لائن پر بھارتی ذرائع ابلاغ نے بھاری توپ خانےکی تعیناتی کی اطلاع بھی دی ہے جس سے حالات کی نزاکت کی غمازی ہوتی ہے۔
مظفر آباد میں کراس ایل او سی ٹریڈ اینڈ ٹریول اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل محمد اسماعیل نے بتایا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ شروع ہونے کے بعد پاکستان نے چکن دا باغ سرحدی چوکی تجارت کے لیے بند کررکھی ہےجب کہ راولا کوٹ اور بھارتی ضلع پونچھ کے درمیان تیتری نوٹ کے راستے چلنے والی ہفتہ وار مسافر بس سروس بھی معطل ہے۔
پاکستان میں فوجی حکام نے لڑائی کے آغاز میں بھارتی افواج کی جانب سے بلا اشتعال فائرنگ کی اطلاع دی تھی تاہم تب سے آج تک ایل او سی پر صورت حال کے بارے میں فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ نے کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
پاکستانی حکام کے بقول بھارتی فائرنگ سے ایک خاتون سمیت دو شہری شدید زخمی ہو گئے تھے۔
ایل او سی پر جھڑپوں کا سلسلہ ختم کرانے کی کوششوں کے سلسلے میں بھارتی کشمیر کے ضلع پونچھ میں ہفتہ کو دونوں ملکوں کے سیکٹر بریگیڈ کمانڈروں کا ہنگامی اجلاس ہوا مگر اس کے نتائج کے بارے میں دونوں جانب سے کوئی تفصیلات جاری نہیں کی گئی ہیں۔
اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی سکس سیکٹر کمانڈر عامر سہیل اشرف اور بھارتی وفد کی قیادت اُن کے ہم منصب ٹین بریگیڈ کمانڈر ٹی ایس ساندھو نے کی۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق بھارت کی جانب سے کرنل کی سطح پر فلیگ میٹنگ کی اپیل پاکستان نے رد کر دی تھی جس کے بعد بریگیڈ کمانڈروں کی سطح پر اجلاس ہوا۔
اطلاعات کے مطابق 11 جون کو لڑائی کا آغاز اُس وقت ہوا جب ایک بھارتی فوجی مبینہ طور پر ایل اوسی کی دوسری جانب سے فائر کی گئی ایک گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا جس پر بھارت نے بھی جوابی فائر کھول دیا۔
اس واقعے کے دو روز بعد مبینہ طور پر ایک اور بھارتی فوجی کی اس انداز میں ہلاکت واقع ہوئی جو لڑائی میں شدت کا باعث بنی۔ بھارتی ذرائع ابلاغ نےحکام کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ جھڑپوں میں کم ازکم چار پاکستانی فوجی بھی مارے گئے۔
اطلاعات کے مطابق بھارتی افواج نے 155 ملی میٹر بوفرز توپیں بھی لائن آف کنٹرول کے قریب ضلع پونچھ میں تعینات کر دیں جس کے بعد لڑائی میں مزید شدت آنے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں محمد اسماعیل نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ تیتری نوٹ تک جانے والی سڑک بھارتی مورچوں کی پہنچ میں ہونے کی وجہ سے ’’مسافروں کی زندگیاں خطرے میں نہیں ڈالی جا سکتی ہیں‘‘ کیوں کہ حالیہ دنوں میں سڑک پر بھی چھوٹے اور بڑے ہتھیاروں سے فائرنگ کی جا چکی ہے۔ ’’ایسے حالات میں بس اور ٹریڈ سروس نہیں چل سکتی۔‘‘
اس بس سروس کا افتتاح 2006ء میں یونائیٹڈ پروگرسیو الائنس کی سربراہ سونیا گاندی نے کیا تھا اور پاک بھارت امن کے عمل میں اسے ایک کلیدی عنصرکی حیثیت حاصل ہے۔
محمد اسماعیل نے بتایا کہ ہر پیر کو چلنے والی مسافر بس سروس اور راولا کوٹ – پونچھ راہ داری کے ذریعے ہفتے میں چار روز ہونے والی تجارت 19 جون سے معطل ہے۔
کراس ایل او سی ٹریڈ اینڈ ٹریول اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل نے بتایا کہ اس راستے ہر ہفتے دونوں اطراف سے لگ بھگ 40 مسافر سرحد پار کرتے ہیں جب کہ اوسطا دونوں اطراف سے 60 ٹرکوں کے ذریعے مال کی تجارت بھی ہوتی ہے۔
تاہم اُنھوں نے بتایا کہ مظفر آباد – سری نگر کے درمیان ہفتہ وار مسافر بس سروس اور تجارت معمول کے مطابق جاری ہے۔
پاکستان نے ماضی میں بھارتی افواج پر خصوصاً موسم سرما کے دوران کشمیر میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کرنے اور بلا اشتعال فائرنگ کے الزامات لگائے ہیں۔
مگر بھارت اپنے اس جارحانہ اقدام کا یہ کہہ کر دفاع کرتا آیا ہے کہ اُس کی فائرنگ کا ہدف لائن آف کنٹرول پر مبینہ طور پر پاکستان کی جانب سے در اندازی کرنے والے عسکریت پسند ہوتے ہیں۔