جنوبی ایشیاء کے صحافیوں کی نمائندہ تنظیم ’سیفما‘ نے پاکستان اور بھارت کی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ دونوں ملکوں کے صحافیوں کو سفری سہولت کے لیے آسان شرائط پر ویزے جاری کیے جائیں تاکہ وہ آزادانہ طور پر ایک دوسرے کے ملک میں جا کر اپنے فرائض سر انجام دے سکیں۔
تنظیم کے سیکرٹری جنرل امتیاز عالم نے صحافیوں کی مقامی تنظیموں کے نمائندوں کے ہمراہ بدھ کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے جہاں دیگر سطحوں اور شعبوں میں تعاون بڑھانے کے لیے کوشاں ہیں تو وہیں شعبہ صحافت سے وابستہ افراد کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیئے۔
اُنھوں نے کہا کہ رواں ماہ کے اواخر میں پاکستان اور بھارت کے داخلہ سیکرٹری سطح کے اسلام آباد میں ہونے والے مذاکرات میں دونوں ملکوں کے صحافیوں کو نرم اور آسان شرائط پر ویزوں کے اجراء پر غور کرنا چاہیئے۔
’’اطلاعات کی آزادانہ رسائی اور معلومات کا بہاؤ اگر سرحد کے آر پار نہیں ہوگا تو نا تو اعتماد سازی ہو سکتی ہے اور نا ہی باہمی اختلافات سمجھ میں آسکتے ہیں۔‘‘
امتیاز عالم نے کہا کہ قابل عمل تعاون اور تجارت کے فروغ کے لیے بھی ضروری ہے کہ دونوں پڑوسی ممالک کے صحافی ایک دوسرے کے ملک جا کر حقیقی معلومات عوام تک پہنچائیں۔
’’ہم ہندوستان کا جو نقشہ یہاں پیش کرتے ہیں وہ بڑا منفی ہے اور بھارت میں پاکستان کی جو تصویر میڈیا میں پیش کی جاتی ہے وہ بڑی منفی ہے ... اطلاعات کی فراہمی نا ہونے اور لوگوں کے سفر پر بندشوں سے جو خلا پیدا ہوا اس کو کم کیے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔‘‘
اسلام آباد میں مقیم بھارتی صحافی اور پریس ٹرسٹ آف انڈیا ’پی ٹی آئی‘ کے نمائندے رضا الاحسن نے بھی اس تجویز کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے صحافیوں کو اگر ایک دوسرے کے ملک میں جا کر رپورٹنگ کی اجازت دی جائے تو اس سے دوطرفہ مسائل کو اجاگر کرنے میں مدد ملے گی۔
’’40 سال تک دونوں ملکوں میں رہنے والوں کو ایک دوسرے کے بارے میں بہت کم پتہ تھا، اخباروں خاص طور پر مغربی میڈیا میں جو کچھ شائع ہوتا تھا دونوں طرف لوگ وہی پڑھتے تھے اور اس کی وجہ سے بہت سی غلط فہیماں ہوتی تھیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے اقدامات سے حقیقی معلومات لوگوں کو ملیں گی اور اس سے تناؤ اور غلط تاثر کم ہو جائیں گے۔‘‘
پاکستانی صدر آصف علی زرداری کے حالیہ دورہ بھارت اور وزیر اعظم منموہن سنگھ سے ان کی ملاقات کے بعد دوطرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں میں تیزی آئی ہے۔
حالیہ مہینوں میں دوطرفہ تجارت کو فروغ دینے کے سلسلے میں بھی دونوں ملکوں کے درمیان کامیاب مذاکرات ہوئے ہیں اور رواں ہفتے لاہور میں پاکستان اور بھارت کی معروف کاروباری شخصیات پر مشتمل دو روزہ اقتصادی کانفرنس میں بھی معاشی شعبے میں تعاون بڑھانے کی نئی راہیں تلاش کرنے پر توجہ مرکوز رہی۔
کانفرنس سے خطاب میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا تھا کہ ماضی کے کشیدہ تعلقات سے دونوں ممالک کے عوام متاثر ہوئے اس لیے ضروری ہے کہ باہمی احترام اور اعتماد پر مشتمل تعلقات استوار کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔