بھارت اور پاکستان کے وزرائے خارجہ نے بات چیت کے حالیہ سلسلے کو دوطرفہ تعلقات کا ”نیا دور“ قرار دیتے ہوئے تمام متنازع اُمور کو ”جامع، سنجیدہ اور مسلسل“ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا اور اُن کی پاکستان ہم منصب حنا ربانی کھر نے ان خیالات کا اظہار بدھ کو نئی دہلی میں تقریباً اڑھائی گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس کے اختتام پر ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب میں کیا۔
مذاکرات میں زیر غور آنے والے دوطرفہ اُمور میں مسئلہ کشمیر بھی شامل تھا اور اجلاس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ کے مطابق دونوں ملکوں نے اس معاملے کا پر امن حل تلاش کرنے کے لیے بامقصد اور مثبت انداز میں بات چیت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
لائن آف کنٹرول کے آر پار بسنے والوں کی آمد و رفت اور تجارت میں آسانی پیدا کرنے کے لیے پاکستان اور بھارت نے اضافی اقدامات متعارف کرانے پر بھی اتفاق کیا۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر ہفتہ وار تجارت دو دن سے بڑھا کر چار دن کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مستقبل میں سری نگر-مظفرآباد اور پونچھ-راولاکوٹ کے مقامات پر ہر منگل، بدھ، جمعرات اور جمعہ کو 21 اشیاء کی تجارت کی جائے گی۔
اس کے علاوہ لائن آف کنٹرول کے آر پار سیاحت اور مذہبی وجوہات کی بنیاد پر سفری سہولتوں کو وسعت دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ دونوں ملکوں نے اتفاق کیا کہ ان کے متعلقہ اداروں کو ویزا درخواستوں پر زیادہ سے زیادہ 45 دنوں میں فیصلہ کرنا ہوگا، جب کہ درخواست گزاروں کو چھ ماہ کے ’ملٹیپل اینٹری‘ ویزے جاری کیے جائیں گے۔
نیوز کانفرنس سے خطاب میں بھارتی وزیر خارجہ نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت اور اقتصادی تعاون میں اضافہ مشترکہ طور پر فائدہ مند ثابت ہوگا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اپریل میں اسلام آباد میں ہونے والا سیکرٹری تجارت سطح کا اجلاس انتہائی مفید رہا اور اس سلسلے میں پاکستان اور بھارت کا مشترکہ کمیشن بات چیت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔
ایس ایم کرشنا نے کہا کہ پاکستان اور بھارت اس بات پر متفق ہیں کہ دہشت گردی امن و سلامتی کے لیے مسلسل خطرہ بنی ہوئی ہے لیکن اُنھوں نے واضح کیا کہ دونوں ملکوں نے اس کے انسداد کے لیے ”مضبوط اور مخلصانہ“ عزم کو دہرایا ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہمسایہ ملکوں نے دہشت گردی کے خلاف تعاون کو مزید وسعت دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ اس میں ملوث عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔
”آئندہ چیلنجوں کا ادراک کرتے ہوئے میں اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے تعلقات درست ڈگر پر چل رہے ہیں۔“
اس موقع پر پاکستان کی نو منتخب وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا کہ وہ حالیہ پاک بھارت مذاکرات کے نتائج سے مطمئن ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے عہدے دار ایک دوسرے کا موقف بغور سن رہے ہیں اور تجاویز کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہے ہیں۔
”یہ یقیناً دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کا ایک نیا دور ہے اور ہم دونوں کی خواہش ہے کہ اس کو مسلسل اور بلا توقف عمل بنایا جائے۔“ اُن کے بقول تعمیری بات چیت کا کوئی متبادل نہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان 2004ء میں شروع ہونے والا جامع امن مذاکرات کا عمل نومبر 2008ء میں ممبئی میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد معطل ہو گیا تھا۔ بھارت کے تجارتی مرکز میں ہونے والے ان حملوں میں کم از کم 166 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ تاہم تقریباً دو سال کے تعطل کے بعد رواں سال کے اوائل میں بات چیت کا یہ عمل بحال ہو گیا۔
بدھ کو جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ جامع امن مذاکرات کے سلسلے میں آئندہ سال کی پہلی شش ماہی میں اسلام آباد میں ملاقات کریں گے جس میں دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کے عمل میں ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا جائے گا۔