پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی پیر کو تین روزہ سرکاری دورے پر قطر پہنچے ہیں جہاں وہ اس خلیجی ریاست کے رہنماؤں سے تجارت اور سرمایہ کاری سمیت مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون کے فروغ پر بات چیت کریں گے۔
وزیر اعظم کے وفد میں وزیر خارجہ حنا ربانی کھر، وزیر پیٹرولیم عاصم حسین اور وزیر برائے تکنیکی تعلیم ریاض حسین پیرزادہ بھی شامل ہیں۔
اسلام آباد ایئرپورٹ پر روانگی سے قبل سرکاری میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کو وسعت دینے کے ’’وسیع مواقع‘‘ موجود ہیں۔
وزیر اعظم گیلانی کا کہنا تھا کہ دوہا میں قطری حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں سرمایہ کاری اور خصوصاً مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی پاکستان کو برآمد پر بھی بات چیت ہو گی۔
پاکستان ان دنوں توانائی کے بحران کا شکار ہے جس سے نمٹنے کے لیے حکومت ملک میں توانائی کے متبادل ذرائع کے استعمال پر زور دے رہی ہے، جب کہ قطر کا شمار ایل این جی پیدا کرنے والے بڑے ملکوں میں ہوتا ہے۔
وزیر اعظم نے بتایا کہ بات چیت میں وہ پاکستانی افرادی قوت کی برآمد اور اپنے ملک میں توانائی، بنیادی ڈھانچے، زراعت، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں قطری سرمایہ کاری پر بھی تبادلہ خیال کریں گے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ سال 2022ء میں فٹ بال کے عالمی کپ کی میزبانی کے لیے قطر کو چنا گیا ہے، اور اس بین الاقوامی مقابلے کی تیاریوں کے سلسلے میں اطلاعات کے مطابق اس کو لاکھوں ہنرمند افراد کی ضرورت ہو گی۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت لگ بھگ 83,000 پاکستانی قطر میں تعمیرات اور تیل سمیت مختلف صنعتوں سے وابسطہ ہیں۔
پاکستان اور قطر کے مابین مالی سال 2009-10ء میں دوطرفہ تجارت کا مجموعی حجم 59 کروڑ ڈالر رہا، جس میں خلیجی ریاست کا حصہ زیادہ تھا۔ پاکستان کی برآمدات میں چاول اور سیمنٹ سرِ فہرست تھے، جب کہ قطر سے پیٹرولیم مصنوعات درآمد کی گئیں۔
پاکستان کے سارکاری ٹیلی ویژن ’پی ٹی وی‘ کے مطابق وزیر اعظم گیلانی اور قطری قیادت افغانستان میں سلامتی کی صورت حال کے تناظر میں علاقائی امن و استحکام پر بھی بات چیت کریں گے۔
امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان قیام امن کے سلسلے میں ابتدائی بات چیت قطر میں ہوئی تھی اور گزشتہ ماہ اس کی تصدیق کرتے ہوئے طالبان نے سیاسی رابطوں میں آسانی کے لیے افغانستان سے باہر اپنا دفتر قائم کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ باور کیا جاتا ہے کہ یہ دفتر قطر میں ہی قائم کیا جا رہا ہے، تاہم اس بارے میں کوئی باضابطہ اعلان سامنے نہیں آیا ہے۔