پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کی ایک بڑی تعداد بنوں، ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کے 1200 سرکاری اسکولوں میں مقیم ہے۔
اقوام متحدہ کے عہدیداروں کا کہنا ہے گرمیوں کی چھٹیوں کے ختم ہونے پر ان اسکولوں کو خالی کرنا پڑے گا لیکن اس سے قبل یہ ضروری ہے کہ ان تمام تعلیمی اداروں کی مناسب صفائی کی جائے بصورت دیگر وبائی امراض پھوٹنے کے خدشات بڑھ جائیں گے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین ’یو این ایچ سی آر‘ کی ترجمان دنیا اسلم خان نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں بتایا کہ اس وقت بنیادی چیلنج یہ ہے کہ نقل مکانی کرنے والوں کی اکثریت کیمپوں میں نہیں رہ رہی ہے۔
’’اچھی خاصی تعداد اس وقت 1200 اسکول میں رہائش پذیر ہے۔ گورنمنٹ اسکول کی عمارتوں میں انفرا اسٹرکچر پہلے ہی سے اتنا بہتر نہیں ہوتا، بنیادی ضروریات زندگی کی سہولتیں نہیں ہوتیں، جیسے پانی ہو گیا، واش روم کی سہولیات ہیں تو ان سہولیات کے فقدان کی وجہ سے جو ایک اہم چیلنج آنے والے دنوں میں ہو سکتا ہے وہ صحت سے متعلقہ مسائل ہیں مثلاً بیماریوں کا پھوٹ پڑنا۔‘‘
دنیا اسلم کا کہنا تھا کہ اس صورت حال سے یقیناً تعلیم کا شعبہ متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
’’اس سے تعلیم کا سیکٹر یقیناً متاثر ہو گا… یہ چیز ہمارے لیے بھی بہت (باعث تشویش) ہے کہ دو مہینے میں، یا مہینے کے عرصے میں اسکول جب واپس کھل جائیں گے….اس لیے ضروری یہ ہے کہ اسکولوں کا ٹائم شروع ہونے سے پہلے ان لوگوں کو کسی متبادل جگہ پر شفٹ کیا جائے۔کیمپس کی صورت حال کو بہتر کیا جائے تاکہ لوگ کیمپس جا سکیں کیونکہ ان لوگوں کے جانے کے فوراً بعد بھی اسکول اس قابل نہیں ہوں گے کہ اس میں آپ تعلیمی سرگرمیاں شروع کریں کیونکہ صفائی و ستھرائی کی صورت حال کو بہتر بنانا پڑے گا۔‘‘
یو این ایچ سی آر کی ترجمان دنیا اسلم نے بتایا کہ نقل مکانی کرنے والے افراد میں سے 74 فیصد خواتین اور بچے ہیں۔ جب کہ بیشتر خواتین کے پاس قومی شناختی کارڈ بھی نہیں تھا جس کی وجہ سے اُنھیں امداد کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ نقل مکانی کر کے آنے والوں کے رہائش کے مسائل حل کرنے کے علاوہ ان کی طبی ضروریات کے لیے بھی کام کر رہی ہے اور بے گھر افراد کے لیے طبی کیمپ بھی قائم کیے گئے ہیں۔