اسلام آباد —
مشتبہ امریکی ڈرون حملوں کے خلاف مہم چلانے والا کریم خان گزشتہ تقریباً ایک ہفتے سے لاپتا ہے اور ان کے وکیل اور اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ مبینہ طور پر پولیس یا سکیورٹی اہلکاروں کی ’’حراست‘ میں ہے۔
وکیل شہزاد اکبر نے منگل کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 5 فروری کو پولیس اور کچھ سادہ کپڑوں میں اہلکاروں نے شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے کریم خان کی راولپنڈی میں رہائش گاہ پر چھاپہ مارا اور بغیر کچھ بتائے اسے اپنے ساتھ لے گئے۔
’’5 فروری کو رات گئے یہ خان کے گھر میں دروازہ توڑ کر گھسے اور اہل خانہ کو کچھ بتائے بغیر اسے اپنے ساتھ لے گئے۔ اگر اس کے خلاف کسی قسم کے جرم میں ملوث ہونے کے الزامات ہوتے تو 24 گھنٹے تحویل میں رکھنے کے بعد کسی عدالت کے سامنے پیش کیا جاتا اور باقاعدہ کیس درج کیا جاتا۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔‘‘
ان کے بقول یہ جبری گمشدگی کا ایک واقعہ ہے۔
شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ میں انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے کریم خان کو غیر قانونی طور پر زیر حراست رکھنے کی ایک درخواست دائر کردی ہے۔
کریم خان کے بھائی اور ایک کم سن بیٹا دسمبر 2009ء میں مشتبہ امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد انہوں نے ان حملوں کے خلاف ایک مہم کا آغاز کرتے ہوئے ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں امریکی اہلکاروں کو بھی نامزد کیا تھا۔
شہزاد اکبر نے بتایا کہ کریم خان نے رواں ہفتے یورپ کے سفر پر جرمن، ہالینڈ اور برطانوی قانون سازوں کو ڈرون حملوں سے متعلق اپنے ذاتی تجربات اور اس کے پاکستان پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں آگاہ کرنا تھا۔
انہوں نے کریم خان کے لاپتا ہونے کی اطلاع مقامی تھانے میں کی مگر ان کے بقول پولیس اہلکار اس بات سے انکاری ہیں کہ انہیں سرکاری اہلکاروں نے اٹھایا ہے۔
تاہم مقامی پولیس اسٹیشن کے انچارج چوہدری جمیل کا کہنا تھا کہ کریم خان کی تلاش شہر کے مختلف پولیس اسٹیشنز میں بھی جاری ہے اور ابتدائی کارروائی کے بعد باقاعدہ شکایت درج کر لی جائے گی۔
’’فرض کریں میں ایک آدمی اٹھا کر لے آتا ہوں مجھے وہ کسی مقدمے میں مطلوب ہے۔ وہ تو ہوگیا لیگل پروسس۔ اگر اس کے اہل خانہ کسی دوسرے تھانے میں جا کر کہتے ہیں کہ ہمارا بندہ پولیس اٹھا کر لے گئی تو میں تو لیگل پروسس کے لیے اٹھا کر لایا ہوں۔ اس میں میری بھی بدنیتی شامل نہیں ہوتی۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث افراد کے بارے میں بعض اوقات نہیں بتایا جاتا کہ انہیں کہاں رکھا گیا ہے۔
وکیل شہزاد اکبر نے منگل کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 5 فروری کو پولیس اور کچھ سادہ کپڑوں میں اہلکاروں نے شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے کریم خان کی راولپنڈی میں رہائش گاہ پر چھاپہ مارا اور بغیر کچھ بتائے اسے اپنے ساتھ لے گئے۔
’’5 فروری کو رات گئے یہ خان کے گھر میں دروازہ توڑ کر گھسے اور اہل خانہ کو کچھ بتائے بغیر اسے اپنے ساتھ لے گئے۔ اگر اس کے خلاف کسی قسم کے جرم میں ملوث ہونے کے الزامات ہوتے تو 24 گھنٹے تحویل میں رکھنے کے بعد کسی عدالت کے سامنے پیش کیا جاتا اور باقاعدہ کیس درج کیا جاتا۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔‘‘
ان کے بقول یہ جبری گمشدگی کا ایک واقعہ ہے۔
شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ میں انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے کریم خان کو غیر قانونی طور پر زیر حراست رکھنے کی ایک درخواست دائر کردی ہے۔
کریم خان کے بھائی اور ایک کم سن بیٹا دسمبر 2009ء میں مشتبہ امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد انہوں نے ان حملوں کے خلاف ایک مہم کا آغاز کرتے ہوئے ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں امریکی اہلکاروں کو بھی نامزد کیا تھا۔
شہزاد اکبر نے بتایا کہ کریم خان نے رواں ہفتے یورپ کے سفر پر جرمن، ہالینڈ اور برطانوی قانون سازوں کو ڈرون حملوں سے متعلق اپنے ذاتی تجربات اور اس کے پاکستان پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں آگاہ کرنا تھا۔
انہوں نے کریم خان کے لاپتا ہونے کی اطلاع مقامی تھانے میں کی مگر ان کے بقول پولیس اہلکار اس بات سے انکاری ہیں کہ انہیں سرکاری اہلکاروں نے اٹھایا ہے۔
تاہم مقامی پولیس اسٹیشن کے انچارج چوہدری جمیل کا کہنا تھا کہ کریم خان کی تلاش شہر کے مختلف پولیس اسٹیشنز میں بھی جاری ہے اور ابتدائی کارروائی کے بعد باقاعدہ شکایت درج کر لی جائے گی۔
’’فرض کریں میں ایک آدمی اٹھا کر لے آتا ہوں مجھے وہ کسی مقدمے میں مطلوب ہے۔ وہ تو ہوگیا لیگل پروسس۔ اگر اس کے اہل خانہ کسی دوسرے تھانے میں جا کر کہتے ہیں کہ ہمارا بندہ پولیس اٹھا کر لے گئی تو میں تو لیگل پروسس کے لیے اٹھا کر لایا ہوں۔ اس میں میری بھی بدنیتی شامل نہیں ہوتی۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث افراد کے بارے میں بعض اوقات نہیں بتایا جاتا کہ انہیں کہاں رکھا گیا ہے۔