پاکستان کی شمالی مغربی علاقوں اور اس کے زیرانتظام کشمیر میں آٹھ اکتوبر 2005ء کو آنے والے زلزلے کو نو برس ہو چکے ہیں تاہم اب بھی بعض علاقوں میں بسنے والوں کا کہنا ہے کہ وعدے کے مطابق بحالی کے کام مکمل نہیں ہوئے۔
اُدھر پاکستان میں سیاسی قیادت اور آفات سے نمٹنے کے اداروں کے عہدیداروں نے اپنے پیغامات میں کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اس طرح کی آفات سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی اور مناسب تیاری کی جائے۔
ملکی تاریخ کے ایک طاقتور زلزلے کے نو سال پورے ہونے پر بدھ کو پاکستان اور اس کے زیر انتظام کشمیر میں مختلف تقاریب کا انعقاد کیا گیا۔ 2005ء میں آنے والے 7.6 شدت کے زلزلے سے 70 ہزار سے زائد افراد ہلاک جب کہ لگ بھگ 80 ہزار زخمی ہو گئے تھے۔
پاکستانی کشمیر میں زلزلے سے بحالی و تعمیر نو کے ریاستی ادارے ’سیرا‘ کے مطابق متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو کے آٹھ ہزار میں سے بیشتر منصوبے مکمل ہو چکے ہیں جب کہ باقی پر کام جاری ہے۔ عہدیدار وسائل کی کمی کی شکایات بھی کرتے نظر آتے ہیں۔
صدر ممنون حسین نے اپنے پیغام میں کہا کہ حالیہ برسوں میں پاکستان میں قدرتی آفات کے واقعات میں اضافہ اور شدت آئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ صورت حال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق ان عوامل کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں جو سیلاب اور دیگر ایسی آفات کا سبب بنتی ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف نے اپنے پیغام میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے سرکاری اداروں پر زور دیا کہ وہ نئے خطرات کی پیش گوئی اور ان کے سدباب کے لیے اپنی کوششوں کو تیز کریں۔
آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے ’این ڈی ایم اے‘ کے سربراہ میجر جنرل سعید علیم کا کہنا ہے کہ پاکستان کو عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث کئی چیلنجوں کا سامنا ہے جس کی وجہ سے اُن کے بقول پاکستان میں غیر معمولی بارشوں یا اور بعض علاقوں میں خشک سالی کا سامنا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ’این ڈی ایم اے‘ اس صورت حال میں ہر ممکن تیاری کے لیے اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں رواں مون سون بارشوں سے آنے والے سیلاب نے خاص طور پر صوبہ پنجاب اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں تباہی مچائی۔
سیلاب اور بارشوں کے باعث 367 افراد ہلاک جب کہ 25 لاکھ سے زائد متاثر ہوئے۔ پاکستانی حکام کہہ چکے ہیں کہ اس طرح کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے متعلقہ اداروں کے پاس وسائل کی کمی ہے۔