رسائی کے لنکس

دکانیں رات ساڑھے آٹھ بجے بند کرنے کا فیصلہ، تاجروں کا انکار


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کی قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں صوبوں نے ملک میں توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے بازار رات ساڑھے آٹھ بجے بند کرنے پر اصولی اتفاق کیا ہے۔ حکومت نے مالی سال 23-2022 کے لیے 800 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ مختص کرنےکی تجویز منظور

حکومت کی طرف سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق اسلام آباد میں وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت این ای سی کے اجلاس میں اہم مشاورت مکمل کرلی گئی جس میں تمام وزرائے اعلی نے توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے ملک گیر اقدامات پر وفاقی کابینہ کےفیصلوں کی تائید کی ہے۔

دوسری طرف اس فیصلے پر تاجران کی طرف منفی ردعمل آیا ہے اور انہوں نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کردیا ہے۔

اجلاس میں وفاقی کابینہ کے 7 جون کے اجلاس میں توانائی کی بچت کے حوالے سے تجاویز اور فیصلوں سے متعلق صوبائی وزرائے اعلی کو آگاہ کیا گیا۔

چاروں صوبوں نے بازار اور دکانیں رات ساڑھے 8 بجے بند کرنے کی تجویز پر اصولی طور پر اتفاق کیا ہے۔

سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے وزرائےاعلی نے دودن کی مہلت مانگی تاکہ وہ اپنے اپنے صوبوں میں تجارتی وکارباری تنظیموں سے مشاورت مکمل کریں۔


اس اجلاس میں صوبہ خیبرپختونخوا کی نمائندگی چیف سیکریٹری ڈاکٹر شہزاد خان بنگش نے کی۔

حکومت کے مطابق وزرائے اعلی نے توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت کے اقدامات کو سراہا اور اس ضمن میں اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔

تاجر رہنماؤں نے اس فیصلہ کو ملک کی تاجر برادری کے ساتھ ناانصافی قرار دیا ہے۔

انجمن تاجران کے صدر اجمل بلوچ نے اس بارے میں ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ تاجر کسی صورت اپنا کاروبار شام ساڑھے آٹھ بجے بند نہیں کریں گے۔حکومت تاجر برادری کے لیے آسانیاں پیدا کرے نہ کہ مشکلات ۔

اجمل بلوچ نے کہا کہ ہر اس سیکٹر کی بجلی بند کی جائے جو مفت میں استعمال ہورہی ہے۔حکمران اپنے اے سی بند کریں گے تو غریب کا پنکھا چلے گا۔تاجر شام 6 بجے سے رات 10 بجے تک سب سے مہنگی بجلی خریدتا ہے۔حکومت اگر تاجر برادری کو بجلی مہیا نہیں کر سکتی تو جنریٹر چلا کر کاروبار کرنے دے۔ ان کا کہنا تھا کہ اتنی شدید گرمی میں خریدار کا گھر سے نکلنا ممکن ہی نہیں۔خریدار شام سے پہلے گھر سے خریداری کے لیے نہیں نکلتا۔ایسی صورت حال میں صبح دکانیں کھولنے کی تجویز بھی نا قابل عمل ہے۔

اقتصادی سروے 2022

حکومت کی طرف سے ملک کی حالیہ اقتصادی صورت حال کے بارے میں اقتصادی سروے 2022 جمعرات کے روز جاری کیا جارہا ہے۔

حکومت کے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق ملک میں معاشی نمو کا حدف 5فیصد رکھا گیا ہے جس کو 6 فیصد تک بڑھانے کی کوشش کی جائے گی۔

زراعت سیکٹر کی نمو کاہدف 3.9 فیصد، صنعت کا 5.9 فیصد اور سروسز سیکٹر کی نمو کا ہدف 5.1 فیصد رکھنے کی منظوری دی گئی۔

گزشتہ سال کی تفصیلات کے مطابق ملک میں معاشی شرح نمو(جی ڈی پی) 4.8 فیصد ہدف کے مقابلے 6 فیصد رہی جب کہ مہنگائی 8 فیصد تک رکھنے کا ہدف 13 فیصد سے تجاوز کر گیا۔

پاکستان: کئی اشیا کی درآمد پر پابندی، معیشت پر فرق کیا پڑے گا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:12 0:00


قومی اقتصادی سروے کے مطابق معاشی شرح نمو، زراعت، انڈسٹری، سروسز سیکٹر، برآمدات، اہم فصلوں، لارج مینوفیکچرنگ اور چھوٹی صنعتوں کا ہدف پورا ہوا لیکن کپاس، لائیو اسٹاک، تعمیرات، جنگلات اور بجلی پیداوار کے اہداف پورے نہیں ہوئے۔

ملک میں فی کس آمدن کا 2 لاکھ 46 ہزار 414 روپے کا ہدف پورا کر لیا گیا جب کہ 11 ماہ میں ملکی برآمدات ریکارڈ 29 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔

نکات کے مطابق ملک میں زراعت کے شعبہ میں ہدف 3.5 کے مقابلہ میں 4.4 فیصد رہا۔ صنعتی شعبہ میں 6.6 کا ہدف 7.2 فیصد رہا۔

مینوفکچرنگ کا شعبہ بھی بہتر ہوا جہاں 6.2 کے ہدف کے مقابلے میں 7.2 فیصد کی رفتار سے ترقی ہوئی۔ بڑی صنعتوں میں شرح نمو 10.5فیصد رہی، بجلی کی پیداوار اور تقسیم کی شرح نمو 7.9 فیصد رہی جب کہ مواصلات اور ٹرانسپورٹ میں ترقی کی شرح 5.4 فیصد رہی۔

مائننگ کا شعبہ تنزلی کا شکار رہا جہاں 4.1 ہدف کے مقابلہ میں رفتار منفی 4.5 کی رہی۔رئیل سٹیٹ میں 4 فیصد کا ہدف تھا جو صرف 3.7 فیصد حاصل کیا جا سکا۔

حکومت کی طرف سے جاری قومی اقتصادی کونسل کے اعلامیہ کے مطابق وزارت منصوبہ بندی نے قومی اقتصادی کونسل کو سالانہ پلان برائے سال 22-2021 کا جائزہ پیش کیا اور سال 23-2022 کے اہداف کے بارے تفصیلی بریفنگ دی۔

اجلاس میں وزیر اعظم کی اشیاءضروریہ کی فراہمی اور مہنگائی کو کم کرنے کی کوشش کرنے اور تمام صوبوں کو اس ضمن میں اقدامات کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے زراعت کے شعبے کی بڑھوتری پر خصوصی توجہ دینے کی ہدایت کی۔

کونسل کو ترقیاتی بجٹ 22-2021 کا جائزہ پیش کیا گیا جس کے مطابق حکومت نے مالی سال 23-2022 کے لیے 800 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ مختص کرنےکی تجویز منظور کی ہے۔ ترقیاتی بجٹ میں 60 فیصد جاری منصوبوں اور 40 فیصد نئے منصوبوں پر خرچ کیا جائے گا۔

XS
SM
MD
LG