مرجان ، افغانستان سے کراچی آکر بس جانے والی پانچ چھوٹے چھوٹے بچوں کی لاغر سی ماں ہے۔ دوسرے لوگوں کی طرح اس کا بھی یہی خیال ہے کہ افغان پناہ گزین پاکستان کی معیشت پر ایک بوجھ ہیں۔ وہ دبلی پتلی ضرور ہے مگر حد درجہ محنتی بھی ہے۔ وہ کراچی کی لمبی چوڑی سڑکوں کے کنارے آباد کچرا کنڈیوں سے کاغذ، پلاسٹک کی تھیلیاں اور ایسی ہی دیگر اشیاء چننے کا کام کرتی ہے جو ری سائیکل ہوجاتی ہیں۔
ناقابل برداشت تعفن اور گندگی کے ڈھیرسے ایسی چیزیں چننا جن سے دوسری چیزیں بنتی ہوں یا جنہیں دوبارہ استعمال میں لایا جاسکتا ہو، جان جوکھوں کا کام ہے۔ مگر مرجان کہتی ہے "کچرا کنڈیوں سے روزی کمانا اور گھروالوں کا پیٹ پالنا میری مجبوری ہے۔ میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں"۔
مرجان اس کام کو کرنے والی تنہا عورت نہیں ہے۔ گیارہ سال پہلے افغان صوبے بدخشاں کے ایک نہیں درجنوں افغان بھاگ کر پاکستان آگئے تھے۔ یہاں آکر انہیں سب سے پہلے یہی کام ملا جس کے انہیں روزانہ دوسو پچاس روپے ملتے ہیں۔ یہ لوگ کچرا اکھٹا کرنیوالے ایک ڈپو میں ملازمت کرتے ہیں جسے انہی کا ایک ہم وطن چلاتا ہے۔
مرجان جس ڈپو کے لئے کچرا چننے کا کام کرتی ہیں وہاں ایک سو کے لگ بھگ دوسرے لوگ بھی کام کرتے ہیں لیکن مرجان اور اس کی ایک رشتے دار حسنہ کے علاوہ باقی سب مرد ہیں۔ مرجان اور حسنہ جیسے لاکھوں افغان مرد ، عورتیں، بچے اور بوڑھے ستر کی دھائی سے ہی پاکستان کی معیشت سے جڑے تقریباً ہر شعبے میں کام کررہے ہیں لیکن ان کی تعداد سے متعلق سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں جو اس بات کی نشاندہی ہے کہ پاکستانی معیشت میں افغان پناہ گزینوں کا کردار در پردہ ہے یا پھر یہ مسلسل نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے افغان پناہ گزین نے حال ہی میں اس طرف توجہ دیتے ہوئے پاکستانی معیشت میں افغان پناہ گزینوں کی شرکت اور ان کے اثاثوں پر مطالعہ شروع کیا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کے پانچ شہروں پشاور، ہری پور،کوئٹہ، اسلام آباد اور اٹک میں ایک سروے بھی کیا جارہا ہے۔ بعد میں اس سروے کا دائرہ دوسرے شہروں تک بڑھا دیاجائے گا۔ مطالعے میں ملک کے تمام شعبوں خصوصاًری سائیکلنگ اور کچرا کنڈیوں سے وابستہ افغان پناہ گزینوں کے کام پر توجہ مرکوز رہے گی۔
مرجان جس ڈپو کے لئے کام کرتی ہے وہاں کے مالک حاجی شریف کا کہنا ہے کہ کراچی میں کوڑا کرکٹ چننے والے افغان پناہ گزینوں کی تعداد ہزاروں اور لاکھوں میں ہے۔ افغان بچے اور نوجوان پاکستان کے مختلف شہروں سے کراچی کا رخ کرتے ہیں اور یہاں سے پیسہ کما کر اپنے اپنے گھروں کو بھیجتے ہیں۔
حاجی شریف نے انکشاف کیا کہ کوڑا کچرا ڈپو سے ماہانہ پچیس سے تیس ہزار روپے آمدنی ہوتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کچھ لوگ سڑکوں اور گلی کوچوں میں پھیرا لگا کر بھی بہت سی چیزیں اکٹھا کرتے ہیں ۔ ان چیزوں کومجھ جیسے تاجر خریدلیتے ہیں۔ کبھی یہ خریدو فروخت وزن کے حساب سے ہوتی ہے تو کبھی دنوں کے شمار سے۔
شہر بھر کا کچرا اکٹھا کرکے اسے مختلف فیکٹریوں اور ورکشاپس کو بھیج دیا جایا ہے جہاں اس کچرے کو ری سائیکل کیا جاتا ہے ۔ دھاتی سامان، کاغذ، ربڑ، شیشہ اور پلاسٹک سمیت ہرقسم کا سامان جو ری سائیکل ہوسکے ان فیکٹریوں میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے جبکہ پلاسٹک اور دیگر میٹریل بیرون ملک برآمد کردیا جاتا ہے۔
دوہزار سات، آٹھ میں جاری کردہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کے کی موجودہ تعداد سولہ لاکھ ہے جن میں سے اسی ہزار کراچی میں مقیم ہیں۔ ان میں سے تقریباً سات فیصد افراد مختلف صنعتوں میں یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں۔