اس وقت پاکستان میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستان روپے کی قدر اب تک کی پست ترین سطح پر ہے اور بعض ماہرین کا خیال ہے کہ ابھی اس قدر میں مزید کمی ہو گی اور پاکستانی معیشت جو پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے۔ اس کی مشکلات میں یہ صورت حال اور اضافہ کر رہی ہے۔
پاکستانی روپے کی قدر میں اس گراوٹ کے اسباب کیا ہیں۔ اس بارے میں معاشی ماہرین کی مختلف اراء ہیں۔ بعض کے خیال میں اس کا ایک بڑا سبب افغانستان کی صورت حال ہے۔ جو اس وقت بدترین معاشی بحران کا شکار ہے۔ اور یہ وہ قیمت ہے جو پاکستان کو افغانستان کے حالات کے سبب ادا کرنی پڑ رہی ہے۔
ڈاکٹر عابد قیوم سلیہر، سسٹین ایبل ڈیولمپنٹ پالسی انسٹی ٹیوٹ یا اسی ڈی پی آئی کے ایکزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ وائس آف امریکہ سے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے افغانستان کی صورت حال کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جب تک افغانستان میں ایک ایسی مستحکم حکومت نہیں بنتی جسے بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا ہو یہ صورت حال برقرار رہ سکتی ہے۔ اگر اسے شامل کیا جائے تو اس وقت تک پاکستان کی آبادی 22 کروڑ سے بڑھ کر 26 کروڑ ہو چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ روپے کی قدر میں کمی بہت حد تک ہمارے توازن ادائیگی اور بڑھتی ہوئی درآمدات کے سبب ہے۔ لیکن ہم اس سلسلے میں افغانستان کی صورت حال کو نظر انداز نہیں کر سکتے، جہاں زر مبادلہ کا شدید بحران ہے۔ ان کے غیر ملکی فارن اکسچینج اکاؤنٹ منجمد ہیں۔ اُن کے پاس ڈالر نہیں ہیں تو کہیں نہ کہیں سے تو انہیں ڈالر حاصل کرنے ہوں گے اور ظاہر کہ یہ ڈالرز زیادہ تر پاکستان سے ہی خرید کر قانونی یا غیر قانونی طریقے سے وہاں جا رہے ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے تو صرف گندم ہی اسمگل ہو کر وہاں جاتی تھی، لیکن اب اور بہت کچھ بھی جا رہا ہے۔ ایک مثال یہ ہے کہ یوریا فرٹیلائزر اس وقت تاجکستان میں پانچ سو ڈالر فی ٹن ہے جب کہ پاکستان میں دو سو سے ڈھائی سو ڈالر فی ٹن مل رہی ہے۔ کیونکہ اس کی پیداوار رعائتی نرخوں پر ہوتی ہے۔ تو یوریا بھی اسمگل ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا گویا کھانے پینے کی اشیاء سے لے کر فارن کرنسی اور فرٹلائیزر تک اسمگل ہو رہے ہیں جس کا بوجھ ظاہر ہے پاکستان کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کی غیر مستحکم صورت حال کے سبب پاکستان میں آنے والی غیر ملکی سرمایہ کاری بہت متاثر ہوئی ہے۔ کیونکہ جب تک افغانستان مستحکم نہیں ہو گا پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری آنے کے امکانات بہت کم ہیں۔
ڈاکٹر سلیہری نے کہا کہ اور اس سب سے بھی بڑھ کر بقول ان کے پاکستان کو سیاسی معیشت کی قیمت بھی ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے جریدے بلوم برگ کے 16 ستمبر کے ایک اداریے کا حوالہ دیا اور کہا کہ اس میں افغانستان کی صورت حال کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈالتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے اس وقت تک نہ نکلنے دیا جائے جب تک کِہ وہ اپنے اقدامات سے یہ ثابت نہیں کرتا کہ وہ دہشت گردوں کی فنانسنگ مکمل طور پر روک چکا ہے یا وہاں سے جہادی باہر نہیں جا رہے۔انہوں نے کہا حقیقت اس کے برعکس ہے۔ تحریک طالبان پاکستان وہاں سے آ کر پاکستان پر حملے کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اخبار کی اپنی رائے ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ افغان عوام کے بعد پاکستان کو اس کے سب سے زیادہ معاشی اور جیو پولیٹکل اثرات برداشت کرنے پڑ رہے ہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان کے پاس کیا متبادل آپشنز ہیں، ان کا کہنا تھا کہ بہت زیادہ نہیں ہیں۔ کیونکہ پاکستان کے بارے میں ایک تاثر قائم کردیا گیا ہے۔ اور اسی تاثر کی وجہ سے کرکٹ ٹیموں کے دورے تک منسوخ ہو رہے ہیں۔ تو پھر سرمایہ کاری کرنے کون آئے گا۔ تاہم اگر افغانستان میں ایک مستحکم حکومت بن جائے اور چین اسے تسلیم کر کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شامل کر لے تو ہاکستان کو اپنے سی پیک منصوبے، خاص طور پر گوادر پورٹ سے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر اشفاق حسن ممتاز ماہر معاشیات اور پاکستان کے سابق مشیر خزانہ ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نےکہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ روپے کی قدر میں اس کمی کا کوئی تعلق افغانستان کی صورت حال سے ہے۔ کیونکہ سقوط کابل تو 15 اگست کو ہوا۔ اور اس وقت تک روپے کی قدر میں پہلے ہی بہت کمی ہو چکی تھی۔ جس کا سلسلہ مئی کے مہینے سے جاری تھا
ڈاکٹر اشفاق نے کہا کہ ایکس چینج ریٹ کو مستحکم رکھنا اسٹیٹ بینک کی ذمہ داری ہے جو پوری نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ کے بعد ہر چیز صحیح سمت میں جا رہی تھی۔ اور پرائیوٹ سیکٹر بہت مطمئں تھا۔ اور پاکستان کے ایکس چینج ریٹ پر دباؤ کا کوئی جواز نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ سات مئی کو ہماری تبادلے کی شرح 152 روپے 28 پیسے تھی اور اس دن ملک کے ریزرو 15 بلین ڈالر سے زیادہ تھے۔ اور ہمارا ریزرو بڑھ رہا تھا۔ لیکن تبادلے کی شرح نیچے کی طرف جا رہی تھی۔ جو معیشت کے تمام اصولوں کے خلاف ہے، کیونکہ ریزرو کا بڑھنا اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ آنے والے ڈالر ملک سے باہر جانے والے ڈالروں سے زیادہ ہیں۔ ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا تھا کہ اس بات کی تحقیقات کی ضرورت ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔
شاہد جاوید برکی، ورلڈ بینک کے سابقہ عہدیدار ہیں۔ ان کا بھی یہ ہی خیال ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اتنی بھاری کمی کا افغانستان کی صورت حال سے براہ راست کوئی زیادہ تعلق نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں بہت سے نئے منصوبے شروع کئے گئے ہیں جن کے لئے سامان کی درآمد کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ پرآسائش چیزوں کی درآمد میں بھی کوئی خاطر خواہ کمی نہیں ہوئی ہے، ہر چند کہ اب حکومت نے مزید اشیاء کی درآمدات پر پابندی لگائی ہے۔ اس لئے ڈالر باہر زیادہ جا رہا ہے اور آ کم رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یقیناً افغانستان کے لوگ پاکستان سے ڈالرخرید رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس فارن ایکس چینج نہیں ہے۔ ان کے اثاثے مغربی ملکوں میں منجمد کر دیئے گئے ہیں۔ لیکن انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ڈالروں کی خریداری اتنی زیادہ بھی نہیں ہے کہ روپے کی قدر اتنی زیادہ گر جائے۔
آڈیو رپورٹ: