افغانستان میں کرنسی کی قلت کے باعث پاکستان نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان کے منجمد اثاثے بحال کر دے تاکہ مسائل سے دوچار افغان معیشت کو سہارا مل سکے۔
پاکستان کی طرف سے امریکہ اور یورپی ممالک کے بینکوں میں افغانستان کے منجمد اثاثوں کو بحال کرنے کا یہ مطالبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب افغانستان میں عوام کی معاشی مشکلات دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں۔
کابل میں بینکوں کے باہر لوگوں کی طویل قطاریں اس معاشی صورتِ حال کو ظاہر کرتی ہیں جس کی وجہ سے لوگ اپنے بینک اکاؤنٹس میں موجود رقوم حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔
ادھر حکام نے بینکوں سے ایک خاص حد سے زیادہ رقم نکلوانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
دریں اثنا پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے عرب نشریاتی ادارے الجزیرہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں افغانستان میں معاشی بحران پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
افغانستان میں ڈالر کی قلت کے باعث ملکی برآمدات پر منفی اثر پڑا ہے جب کہ لوگوں کے پاس اشیائے خوردونوش کی خریداری کے لیے بھی رقم نہ ہونے کی شکایات عام ہیں۔
'کسی سے قرض بھی نہیں لے سکتے سب پریشان ہیں'
کابل بینک کے سامنے موجود افغان شہری علی جان کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ تین روز سے بینک آ رہے ہیں تاکہ اپنی رقم نکلوا سکیں۔ افغان فوج میں 10 برس تک خدمات سر انجام دینے والے علی جان کا تعلق افغانستان کے صوبہ تخار سے ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے علی جان نے بتایا کہ وہ ابھی تک بینک سے اپنی رقم نہیں نکلوا سکے اور نہ ہی اپنے اکاؤنٹ کی تفصیلات حاصل کر سکے ہیں۔
علی جان کا کہنا ہے کہ وہ ابھی تک اپنی ضروریات لوگوں سے قرض لے کر پوری کر رہے ہیں۔ لیکن اب انہیں شاید کسی سے مزید قرض ملنا مشکل ہے کیونکہ افغانستان میں بیشتر لوگوں کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اب بینکوں کی طرف سے اپنے اکاؤنٹ سے صرف 20 ہزار افغانی ایک ہفتے میں مل سکتے ہیں۔ علی جان کا کہنا ہے کہ اگر انہیں یہ رقم مل بھی جائے پھر بھی اپنے خاندان کے لیے کھانے پینے اور دیگر چیزوں کی خریداری کے لیے یہ رقم ناکافی ہے۔
علی جان کا کہنا ہے کہ دوسری جانب حالیہ چند ہفتوں کے دوران بازار میں اشیا ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔
علی جان کی طرح افغانستان میں دن بدن ایسے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جن کو افغانستان کی موجود مشکل اقتصادی و معاشی صورتِ حال کی وجہ سے ایک غیر یقینی مستقبل کا سامنا ہے۔
دوسری جانب افغانستان کے دارالحکومت کابل کے شمال میں واقع بگرام شہر میں کاروبار کرنے والے امین اللہ کا کہنا ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا کےبعد کاروبار پر بھی منفی اثر پڑا ہے اور ان کے لیے اپنے کاروبار کو جاری رکھنا مشکل ہوتا جا رہا کیونکہ افغان عوام کی قوتِ خرید میں بھی نمایاں کمی ہوئی ہے۔
'دنیا افغانستان کی معاشی مشکلات کا ادراک کرے'
دوسری جانب پاکستان مسلسل عالمی برادری پر زور دے رہا ہے کہ وہ افغانستان کے عوام کو درپیش مشکلات کو کم کرنے کے لیے افغانستان کے منجمد اثاثے بحال کرے تاکہ افغانستان میں ایک انسانی بحران کو روکا جا سکے۔
وزیر خارجہ قریشی نے الجزیرہ ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ بصورت دیگر افغانستان میں معاشی مشکلات کی وجہ سے مہاجرین کی بڑی تعداد پاکستان، ایران اور وسطی ایشیائی ریاستوں کا رخ کر سکتی ہے جس سے پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔
وزیرِ خارجہ قریشی نے مزید کہا کہ انسانی بحران سے بچنے کے لیے افغانستان کے منجمد 10ارب ڈالرز کے اثاثے بحال کیے جائیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ رقم کے ضرورت مند افغان شہریوں کے لیے اقوام متحدہ کی نگرانی میں کوئی طریقہ کار وضع کیا جا سکتا ہے۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں اقتصادی مشکلات سے دہشت گرد بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جس کے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
'پاکستان سے افغانستان لاکھوں ڈالرز اسمگل ہو رہے ہیں'
پاکستان کے سابق وزیرِ خزانہ حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تشویش بجا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حفیظ پاشا نے کہا کہ افغانستان میں افغانستان میں ڈالر کی قلت ہونے کی وجہ سے افغانستان کی درآمدات پر منفی اثر پڑا ہے حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان سے ایک اندازے کے لاکھوں ڈالر روزانہ افغانستان اسمگل ہو رہے ہیں۔
تاہم ابھی تک سرکاری طور پر اس بارے میں کوئی اعداد وشمار سامنے نہیں آئے۔
پاکستان نے افغانستان کے ساتھ باہمی تجارت پاکستانی روپے میں کرنے کی منظوری دی ہے لیکن حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ افغانستان کی وجہ سے پاکستان بھی متاثر ہو رہا ہے۔
ان کے بقول اوپن مارکیٹ میں ایک ڈالر 173 روپے کا ہو گیا ہے اور اس وقت ڈالر کے بینک ریٹ میں دو روپے کا فرق آ گیا ہے اس کی وجہ افغانستان کی صورتِ حال ہے۔
لیکن حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ اگر افغانستان کی صورتِ حال مستحکم نہ ہوئی تو بڑی تعداد میں افغان مہاجرین پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک کا رخ کر سکتے ہیں۔
حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ افغانستان میں عوام کی روزمرہ کی اشیائے ضروریہ پاکستان اور دیگر ممالک سے درآمد کی جاتی ہیں لیکن ڈالر کی قلت کی وجہ سے یہ تجارت بھی متاثر ہوئی ہے۔
حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ اگر افغانستان میں اقتصادی بحران شدید ہو جاتا ہے تو پھر ان کے بقول دہشت گرد عناصر کے دوبارہ منظم ہونے کا خطرہ ہے جو کسی طور پر مغربی سمیت عالمی برادری کے مفاد میں نہیں ہے۔
یادر ہے کہ عالمی برداری کا اصرار ہے کہ طالبان کی حکومت کو اسی صورت میں تسلیم کیا جاسکتا ہے جب وہ بین الاقوامی برداری سے کیے گئے دعدوں کا احترام کریں گے جن میں ایک ایسی جامع حکومت کا قیام ضروری جو انسانی حقوق کا احترام کرے۔